محبت اور عشق

حسین ثاقب

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ٹیلی مواصلات کے شعبے میں کام کرتا تھا۔ یہاں کام کرنے والوں کی زندگی مالی طور پر دوسروں کے مقابلے میں آسودہ تر تھی۔ چونکہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کے طفیل دمشق سے قحط سالی رخصت ہو چکی تھی اس لئے احباب مکمل سکون کے ساتھ زندگی کی دیگر لطافتوں کے بارے میں تدبر اور مکالمہ کیا کرتے تھے۔
انہی دنوں میری گفتگو ایک بابو قسم کے انجنئیر سے ہوتی رہتی تھی جو ہر قسم کی فکری الجھن کا جواب انجینئرنگ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ عمر میں بہت سینئر تھے لیکن اس کے باوجود حفظ مراتب کی حدود میں رہ کر ان سے بحث و مباحثے کا شغل جاری رہتا تھا۔حفظ مراتب کی شدت کا یہ حال تھا میں انہیں باباجی اور وہ مجھے کاکا جی ( پنجابی والا) کہہ کر مخاطب کرتےتھے۔ اگر میں ان کے ثقیل سائنسی دلائل سے چڑتا تھا تو مجھے یقین ہے کہ مجھ سے بات بات میں غالب و فیض کے اشعار اور مشتاق یوسفی کےجملے سن کر ان کا بھی خون کھولتا ہو گا۔
ایک دن میں نے محسوس کیا کہ باباجی خلاف معمول چپ چپ ہیں۔ان کے ہاتھ میں پہلی بار تسبیح دیکھی جس کے دانوں پر ان کی انگلیاں چل رہی تھیں۔ میں نے سوچا ذرا ان سے چھیڑ چھاڑ ہو جائے۔
میں نے پوچھا، بابا جی، محبت اور عشق میں کیا فرق ہے؟ میرا یہ سوال سن کر ان کی انگلیوں میں خفی سی لرزش پیدا ہوئی جو تسبیح کے دانوں پر حرکت کر رہی تھیں۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے نیم باز نظروں سے مجھے دیکھا۔ شاید اس لمحے کے ایک ہزارویں حصے میں ان کے لب بھی تھرتھرائے ہوں۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے سوال کی نامعقولیت نے انہیں ڈسٹرب کر دیا ہے۔ مجھے یوں بھی محسوس ہوا جیسے اندر سے ان کی آواز رندھ گئی ہو اور وہ جواب دینے میں دقت محسوس کر رہے ہوں۔

اچانک انہوں نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور گویا ہوئے-
“ایسے سوال کیوں پوچھتے ہو جن کا جواب تم کتابوں اور شاعروں کے دیوان کھنگال کر بھی حاصل کر سکتے ہو؟”
“مجھے لگ رہا ہے آج آپ حالت معرفت میں ہیں اس لئے سوچا آپ ہی سے جواب لیا جائے”
“تو سنو۔ محبت اور عشق میں وہی فرق ہے جو ٹیلیفون اور ٹیلیویژن میں ہوتا ہے۔”
” لو اور سنو”۔ میں یہ سوچ کر بیزار ہو گیا کہ اس لطیف معاملے میں بھی سائنس اور انجینئرنگ کے فضائل سننے کو ملیں گے۔ “بس کریں باباجی۔ بھلا محبت اور عشق کے لطیف جذبات آپ سیٹلائیٹ کمیونیکیشن سے سمجھائیں گے؟”
” سن تو لو کاکا جی۔محبت اور عشق میں بنیادی فرق ابلاغ یعنی کمیونیکیشن کا ہی ہوتا ہے۔ تم ٹیلیفونک کمیونیکیشن اسی سے کر سکتے ہو جو تمہارے ساتھ ابلاغ کے لئے راضی ہو۔ تم نے فون ملایا دوسرے فریق نے فون کی سکرین پر تمہارا نمبر دیکھتے ہی کال ریجیکٹ کردی۔ کال مکمل نہ ہو سکی اور کوئی رشتہ قائم نہ ہو سکا۔ یا اس نے تمہاری کال وصول کی، تم سے بات کی، تمہاری گفتگو کو پسند کیا اور رابطہ رکھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ یہی محبت ہے جس میں تمہارے کسی شاعر کے بقول دونوں طرف برابر کے بھانبڑ جل رہے ہوتے ہیں۔”
“یعنی محبت یکطرفہ نہیں ہوتی باباجی؟”
“بالکل نہیں۔ یہ ایک عام کنٹریکٹ کی طرح ہوتی ہے جس کی شرائط کا فریقین کے لئے قابل قبول ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کوئی بھی فریق جب دل چاہے، اس کنٹریکٹ سے باہر ہو سکتا ہے۔”
“نوٹس دیے بغیر؟”
“نوٹس تو ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ لکھا پڑھی میں ہو۔ محبت کے رشتے میں نوٹس اتنا خفی بھی ہو سکتا ہے جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس بات سے یہ نہ سمجھنا کہ محبت کوئی کاروباری تعلق ہے۔ کنٹریکٹ کی مثال دینے کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ آپ محبت میں ون وے ٹریفک نہیں چلا سکتے، کسی سے اس کی مرضی کے خلاف محبت نہیں کر سکتے، دوسرے کے فون بند ہونے یا بند کرنے پر کال مکمل نہیں کر سکتے۔ دیواروں سے تو باتیں کر سکتے ہیں لیکن ہوش و حواس کھوئے بغیر صرف ٹیلیفون سیٹ سے باتیں نہیں کر سکتے۔ محبت ہوشمندی اور خرد کا کھیل ہے۔ بعض اوقات تاش کے پتوں کی طرح کھیلنا پڑتا ہے۔”
” اور عشق؟” باباجی نے ایسی کھوئی کھوئی نظروں سے مجھے دیکھا جیسا کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
“ہاں عشق۔ عشق میں کال ملانے کا جھنجھٹ نہیں ہوتا کاکا جی۔ جس طرح ٹیلیویژن سٹیشن سے سگنل نشر ہوتے ہیں اس بات کی پروا کئے بغیر کہ کتنے لوگ اپنا سیٹ آن کرکے آپ کے پروگرام سے ٹیون ان ہو رہے ہیں۔ اگر کسی نے اس وقت ٹی وی سیٹ آن کر لیا تو آپ کا پیغام پہنچ جائے گا۔ لیکن اس میں پیغام یا آرزو کی شدت اور نوعیت کا بڑا دخل ہے۔ اگر تو سگنل مضبوط ہے تو پیغام وہیں پہنچے گا جہاں آپ پہنچانا چاہتے ہیں اور اگر نوعیت فروعی اور عامیانہ نہیں تو پھر پیغام علیہ کا ٹی وی سیٹ ہر وقت آن رہ کر آپ کے سگنل کا منتظر رہےگا۔”
“اور ہوشمندی جو محبت میں ہوتی ہے کیا عشق کے لیے بھی ضروری ہے؟” اپنے سوال کی نامعقولیت پر میں خود بھی خفیف سا ہوگیا۔
“ارے نہیں کاکا جی۔ ہوشمندی میں سگنل سٹرانگ نہیں ہوتے۔ اس میں جنوں کا بوسٹر لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں آپ کا مخاطب بھلے آپ کے سامنے ہی کیوں نہ ہو.”

(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” سے اقتباس)