حسین ثاقب
برادرم فروغ آفتاب زیدی نے آج ہی اپنے بچپن کی ایک تصویر فیس بک پر لگائی اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ اس تصویر میں نظر آنے والے ان کے بہن بھائی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ ان کی یہ سطر پڑھ کر دل دہل گیا۔ اللہ فروغ بھائی کو عمر خضر عطا فرمائے، ان کا ذکر آتے ہی یادوں کا ایک دبستاں سا کھل گیا۔ فروغ بھائی ایک زمانے میں ڈائریکٹر حج اسلام آباد کے عہدے پر فائز تھے جب مجھے ڈپٹی سیکرٹری حج مقرر کیا گیا۔ بعد میں انہیں سعودی عرب میں بھی تعینات کیا گیا، لیکن اس کا ذکر ذرا بعد میں ہوگا۔
ذرا تصور کریں اگر مجھ ایسے گنہگار کو فرض منصبی کے طور پر حجاج کی خدمت پر مامور کر دیا جائے جب کہ اس میں خواہش قلبی کا ذرا بھی دخل نہ ہو تو کیا حال ہوگا۔ اس ہچکچاہٹ میں خدا نخواستہ میری کافرانہ سوچ کارفرما نہیں تھی بلکہ یہ خیال پریشان کرتا تھا کہ اگر فرائض منصبی کی ادائی میں اللہ کے مہمانوں کی خدمت میں ذرا برابر بھی کوتاہی ہو گئی تو کیا ہوگیا۔ مجھے جاننے والوں کو پتہ ہے کہ میں ذرا بےجھجک قسم کا خطاکار ہوں لیکن اس کے باوجود کسی بھی حال میں اپنے اللہ کی ناراضی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
میں اس وقت وزارت اقلیتی امور میں ڈپٹی سیکرٹری تھا جب بینظیر بھٹو کی حکومت ان کے اپنے فاروق بھائی نے برطرف کردی اور درویش منش ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم مقرر کردیا۔ حسب توقع نگران حکومت کی پہلی ترجیح بدترین اقتصادی حالات پر قابو پانا تھی۔ پہلے قدم کے طور پر انہوں نے غیرضروری وزارتوں کو دوسری وزارتوں میں ضم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور میری وزارت کو غیرضروری سمجھ کر مذہبی امور کی وزارت میں ضم کردیا۔ اب اقلیتی امور کا حج اورمذہبی امور سے کیا خاص رشتہ ہے یہ بات سمجھنا میرا سردرد نہیں تھا۔
مفتی لطف اللہ صاحب جو پہلے اقلیتی امور کے سیکرٹری تھے، نئی وزارت کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور انہوں نے سب سے پہلے مجھے حج کا ڈپٹی سیکرٹری تعینات کیا۔ ان کا اندازکار بیوروکریسی والا نہیں تھا۔ ایک منجھے ہوئے سول سرونٹ تھے لیکن حج آپریشن خالصتا” کارپوریٹ انداز میں چلاتے تھے۔ حج کے دوران میں رات گئے تک حج آپریشن کی نگرانی کرتے اور بیوروکریسی کی مدد کے بغیر ہی ضرورت پڑنے پر براہ راست احکام بھی صادر کرتے۔ پڑھے لکھے بیوروکریٹ تھے اور تاریخ اور اردو فارسی ادب پر گہری نظر بھی رکھتے تھے۔ میری زبان سے اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری سن کر مجھ پر مہربان ہو گئے اور ان کے ساتھ نیازمندی کا جو رشتہ بائیس سال پہلے قائم ہوا وہ اب تک برقرار ہے۔
یہ غالبا” 1998 کے حج کا آغاز تھا۔ ہمیں سینیٹ کی مجلس قائمہ نے طلب کیا اور حج پر بریفنگ کے لئے کہا۔ میں نے کمیٹی کے سیکرٹری کو فون کرکے بتایا کہ حج پروازیں شروع ہوئے ابھی تین دن ہوئے ہیں اور ہم لوگ نصف شب تک دفتر میں کام کرتے ہیں تاکہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو فوری طور پر اس کا سدباب کر سکیں۔ اس بریفنگ کو فی الحال ملتوی کیا جائے۔ اس نے اپنی مجبوری کا ذکر کیا اور کہا کہ کوہاٹ کے ایک فاضل سینیٹر نے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔
خیر مقررہ وقت پر میٹنگ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ معزز سینیٹر ابھی کوہاٹ سے روانہ ہوئے ہیں۔ موصوف کا نام بعد میں دھشت گردوں کے ساتھ بھی لیا گیا۔ وہ اس زمانے کی حکمران جماعت کے رکن تھے اور قدرتی طور پر رعونت ان کے روئے مبارک کا جزو بن گئی تھی۔ بعد از انتظار جب وہ بگڑے تیوروں کے ساتھ کمیٹی روم میں داخل ہوئے تو اپنے تجربے کی بنا پر ہم اصل بات کی تہہ تک پہنچ گئے کہ موصوف کچھ منوانا چایتے ہیں۔ پھر ہوا بھی وہی۔ جب سیکرٹری صاحب بریفنگ کے تعارفی کلمات ادا کرنے لگے تو سینیٹر صاحب نے بیچ میں روک دیا۔
“اس حج میں جو ہورہا ہے مجھے سب خبر ہے۔” انہوں نے بگڑے تیوروں کے ساتھ ہماری بریفنگ کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
“خدا خیر کرے صاحب، کیا قیامت آ گئی ہے۔” سیکرٹری صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ سیکرٹری صاحب کے سکون کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں کے مسائل، انکی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ان کے معمول کے مطالبات سے واقف تھے۔
“میری ہمشیرہ کل سے مکہ میں بیٹھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک آپ کا ڈائریکٹر حج اس کو سلام کرنے نہیں گیا۔ اگر میری ہمشیرہ کا یہ حال ہے تو باقی حاجیوں کا کیا حال ہو گا؟”
معلوم ہوا کہ موصوف کی ہمشیر حج کرنے تشریف لے گئی تھیں اور وہ اس کے لئے وی آئی پی پروٹوکول کے خواہاں تھے۔ اتفاق سے ان دنوں حال ہی میں فروغ بھائی نے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ہم نے محترم سینیٹر کو تسلی دی کہ اتنی سنگین کوتاہی پر ڈائریکٹر کی مناسب باز پرس کی جائے گی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ ساتھ اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ حاجیوں کے لئے کئے گئے انتظامات کو بچشم خود حرمین شریفین جا کر ملاحظہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے وہ سفر خرچ خود برداشت فرمائیں گے۔
دفتر آکر فروغ بھائی کو فون کیا تو پتہ چلا کہ سینیٹر صاحب کے مطالبات سے وہ پہلے ہی آگاہ تھے۔ موصوف اپنی ہمشیر کی رہائش گاہ کو بغیر فاضل ادائیگی کے اپ گریڈ کرانا چاہتے تھے۔ اور فروغ بھائی کے واضح انکار کے بعد انہوں نے قائمہ کمیٹی کا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
سینیٹر اور ارکان اسمبلی چاہے حکمران جماعت کے ہوں یا اپوزیشن کے، ان کے ہاتھ میں مجلس قائمہ میں طلبی کا ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ بیوروکریسی پر دباؤ ڈال کر ناجائز کام کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نظری طور پر عوامی نمائیندوں کو مجلس قائمہ کے ذریعے وزارتوں کی نگرانی اور ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیئے جسے مہذب ملکوں میں لیجسلیٹو اوورسائٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس مفید ادارے کو حسب توفیق اور حسب ضرورت باقی اداروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ذاتی اور سیاسی منفعت اور مفاد کے لئے۔ اگر کوئی پڑھا لکھا قابل رکن ان مجالس کا صدر نشین ہو تو ملکی مفاد بھی زیر بحث آتا ہے لیکن بیشتر معزز ارکان درحقیقت اپنی دھونس سے نام نہاد استحقاق استعمال کرکے عمال حکومت پر رعب ڈال کر اپنا کام نکلواتے ہیں۔ آج کے دور میں بعض تو میڈیا کو بھی بلا لیتے ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنے کا آسان حل یہی نظر آتا ہے کہ ان کے ناجائز مطالبات تسلیم کر لئے جائیں۔
میں ایک وزارت میں جائینٹ سیکرٹری تھا۔ اس کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین صاحب پہلے ایک لسٹ بھیجتے پھر ایجنڈا۔ اس لسٹ میں ان لوگوں کے نام ہوتے جن کو وہ نوکری دلوانا چاہتے۔ انکار کی صورت میں کمیٹی روم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا۔ وہ تقریبا” ان پڑھ تھے لیکن اتنے کایاں تھے کہ لسٹ پر بات کرنے سے پہلے اپنا مائک بند کردیتے تاکہ ان کا غیرقانونی مطالبہ کہیں ریکارڈ نہ ہو جائے۔اور ان کا غیر قانونی مطالبہ پورا بھی نہیں ہوا حالانکہ انہوں نے ہمارے سیکشن افسر کو فون کرکے اپنے گن مین بھجوانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ بعد میں ان کے ڈیرے پر ایک خودکش بمبار نے حاضری دی اور موصوف کو زخمی کر کے سیاست سے ہی غیر حاضر کر دیا۔
ایک بار نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں سٹاف کی بھرتی کا مرحلہ تھا جس کے لئے میری اور برادرم شاکراللہ خان کی ڈیوٹی لگی۔ہم نے ملک بھر میں تحریری امتحان اور انٹرویو لئے۔ ہم نے طے کر رکھا تھا کہ صرف میرٹ پر بھرتی کریں گے۔ اس زمانے کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ کی لسٹ ہم نے نظرانداز کر دی تو اگلی میٹنگ میں حساب چکانے کی دھمکی ملی لیکن اس دھمکی کے پورا ہونے سے پہلے ہی بارہ اکتوبر ہوگیا۔
قصہ کوتاہ۔ ہم نے فروغ زیدی صاحب سے کہا کہ محترمہ کو فاضل سینیٹر کی خواہش کے احترام میں آٹھ سو ریال کی عمارت سے سولہ سو ریال کی عمارت میں بلامعاوضہ شفٹ کر دیں۔ اگرچہ یہ کھلم کھلا بےاصولی ہی نہیں بلکہ دھاندلی تھی لیکن ایک لاکھ حاجیوں کے مفاد میں ایسا کرنا ضروری تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم ہر دوسرے دن مجلس قائمہ میں گھسیٹے جاتے جس کی وجہ سے حج آپریشن نظرانداز ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے جمہوری نظام میں اس دھاندلی کا کوئی مداوا نہیں۔ ہم معزز سینیٹر کا استحقاق مجروح ہونے کا باعث نہیں بننا چاہتے تھے۔
میں نے فروغ بھائی کی دلجوئی کے لئے یہ بھی بتایا کہ سینیٹر صاحب حج کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے ان کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کے لئےاپنی جیب خاص سے ہوائی ٹکٹ خریدیں گے۔
“آپ وزارت کو اس معاملے سے باہر رکھیں”۔ فروغ بھائی نے درخواست کی۔ میرے سوال پر انہوں نے باقاعدہ وارننگ دی کہ اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔
“میں موصوف کو پہلے بھی بھگت چکا ہوں۔ وہ آپ کے ذریعے آئیں گے تو پھر مفت رہائش اور گاڑی کا مطالبہ بھی کریں گے۔ وہ جی ایم سی سے کم میں راضی نہیں ہوتے۔ حالانکہ یہ گاڑی ہم نے وزیر صاحب کے لئے مخصوص کر رکھی ہے۔ اگر آپ لوگوں نے دخل نہ دیا تو میرے لئے انکار کرنا آسان ہوگا۔” معلوم ہوا کہ موصوف پہلے بھی حج مشن کے زبردستی مہمان بن چکے ہیں اور واجبات کی ادائی سے مسلسل گریزاں ہیں۔ کبھی بذریعہ رعب بسا اوقات بذریعہ منت و زاری۔
ایک دن فون آیا کہ سینیٹر سیف الرحمان آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ موصوف احتساب کمشن کے مدارالمہام تھے، اور جس کو چاہتے اٹھا کر کال کوٹھڑی میں پھنکوا دیتے تھے۔ ان کے خوف سے حکومت کے وزراء بھی کانپتے تھے اس لئے میرا خوفزدہ ہونا عین فطری تھا۔ میں نے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہا کہ اگر سرکاری کام ہے تو سیکرٹری صاحب سے بات کروائیں۔ اس نے کہا وہ موجود نہیں اور سیف الرحمان صاحب آپ ہی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
“آپ تک نواز شریف صاحب کا حکم پہنچانا ہے۔” سیف الرحمان نے بغیر کسی دعا سلام کے چھوٹتے ہی کہا۔ “جسٹس ۔۔۔ اپنی فیملی اور دوسرے عزیزوں کے ہمراہ حج پر جا رہے ہیں۔ ان کو نواز شریف کا خصوصی مہمان تصور کیا جائے اور انہیں سعودی عرب میں بلا روک ٹوک ہر جگہ جانے کی اجازت ہونی چاہئے۔”
اس زمانے میں حج ویزا پر صرف جدہ اور وہاں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کی اجازت ہوتی تھی اس لئے میں نے دست بستہ عرض کیا کہ جج صاحب کی میزبانی کا شرف تو ہم ضرور حاصل کریں گے لیکن بلا روک ٹوک نقل و حرکت کے لئے انہیں سعودی وزیر داخلہ سے خود بات کرنا پڑےگی کیونکہ ان تک میری رسائی نہیں۔ موصوف کو شاید میری گستاخی پسند نہ آئی اور انہوں نے غصے سے فون پٹخ دیا۔
میں نے فروغ بھائی کو فون کر کے صرف اتنا کہا کہ فلاں جج فیملی کے ساتھ آ رہا ہے۔ اسے اللہ کا نہیں نواز شریف کا مہمان سمجھا جائے۔ میں نے طیش میں آکر ان معزز جج صاحب کے لئے جو اسم صفت استعمال کیا وہ اگر ضبط تحریر میں آ گیا تو میرا بوریا بستر لپیٹا جا سکتا ہے۔
(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” کا ایک باب)
(جاری ہے)