وزارتٍ حج کی یادیں ۲

حسین ثاقب

راجہ ظفر الحق نے جب وزیر مذہبی امور کا قلمدان سنبھالا تو 1997 کا حج آپریشن مکمل ہو چکا تھا۔ یہ آپریشن کسی وزیر کی زیر نگرانی نہیں تھا۔ ان سے پہلے فرید اللہ خان نگران کابینہ کے وزیر تھے جو الیکشن کے بعد تحلیل ہو چکی تھی۔ البتہ جس حج پالیسی کے تحت یہ آپریشن ہوا وہ نگران کابینہ نے منظور کی تھی اور اس پالیسی کا اہم نکتہ یہ تھا کہ اس کے مطابق ہر نوع کے مفت حج پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس سے قبل بینظیر کے دور حکومت میں تین سال تک مفت حج کی سکیم لاگو رہی جس کے مطابق بنکوں اور مالیاتی اداروں کو دھونس اور دھاندلی سے مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اس “کارٍ خیر” میں اپنا حصہ ڈالیں۔ بعد میں اس کی پاداش میں احتساب کے داروغہ سیف الرحمان نے ان اداروں کے سربراہوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔

اس سکیم سے استفادہ کرنے والوں میں زیادہ تر جیالے یا سندھ کے بیروزگار نوجوان ہوتے تھے۔ ان کا کرایہ، رہائش، قربانی کا خرچہ ان اداروں کے ذمے تھا۔ کھجوروں، چپلوں، تسبیحوں اور جائے نماز کی خریداری کے لئے نقد ادائیگی ان “عازمین حج” کو براہ راست کی جاتی تھی۔ اب بیروزگار نوجوانوں کو اس سکیم میں شامل کرنے کا کیا مقصد تھا، اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس سکیم کے درپردہ مقاصد قومی وقار کے منافی تھے۔ وزیراعظم کی پولیٹیکل سیکرٹری اس کی نگران تھیں اور بنکوں اور مالیاتی اداروں کے سربراہوں کو دھمکانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ اس وقت کے وزیر اور آج کل کے قائد حزب اختلاف بھی اس کی نگرانی کرتے تھے لیکن ان کا لہجہ ذرا بہتر اور شہد آگیں ہوتا تھا۔

1996ء میں مفت حج والوں کے لئے اتنے ویزے جاری ہو گئے کہ سعودی حکومت کا منظور کردہ ویزوں کا کوٹہ ختم ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں اصلی حاجی احرام باندھے کراچی ائر پورٹ سے لوٹا دئے گئے حالانکہ انہوں نے تمام واجبات جمع کروا دئے تھے۔ یہ اس دور کا سب سے بڑا سکینڈل تھا۔ کہتے ہیں کہ اسی سال پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی ان ناکام حاجیوں کی بددعاؤں کا نتیجہ تھی۔ اس مفت کی عبادت کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔

وزارت مذہبی امور کا دفتر کئی عشروں سے جی پی او سے ملحقہ عمارت میں تھا جو اس کے اپنے ذیلی ادارے متروکہ وقف املاک بورڈ کی ملکیت تھی۔ انہی دنوں شاہراہٍ دستور پر واقع وزیراعظم کا نیا دفتر بھی تیار ہو چکا تھا اور نواز شریف صاحب وزیراعظم کے پرانے دفتر واقع سٹیٹ بنک بلڈنگ سے نئے دفتر منتقل ہو چکے تھے۔ یہ بلڈنگ کا وہ حصہ ہے جہاں آجکل نادرہ ہیڈ کوارٹر واقع ہے۔ یہاں ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ وزیر اعظم کو اتنے بڑے دفتر کی ضرورت تھی یا نہیں کیونکہ وزیراعظم کا دفتر کئی سالوں سے مسلسل پھیل رہا تھا اور اس میں کام کرنے والا عملہ چھوٹے چھوٹے کابکوں میں بیٹھ کر کام کرنے پر مجبور تھا۔ اس میں صرف وزیراعظم کا کمرہ تھا جو ہر لحاظ سے شاہانہ تھا۔

اور یہ کمرہ راجہ ظفرالحق صاحب کی آنکھوں میں ایسا سما گیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اسی میں بیٹھنا چاہتے تھے کہ جاتے وزیراعظم کی کرسی ہی سہی۔ انہیں علم تھا کہ تختٍ طاؤس نما وہ کرسی ابھی تک وہیں پڑی ہے۔ انہوں نے اٹھتے بیٹھتے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وزارت کو موجودہ عمارت چھوڑ کر سٹیٹ بنک بلڈنگ میں شفٹ ہو جانا جایئے اور وہ اس سلسلے میں میاں نواز شریف سے بات بھی کر چکے ہیں۔ اس عمارت میں ایک آڈیٹوریم بھی تھا جو گذرے سالوں میں اسمبلی ہال کا کام دیتا تھا اور اسمبلی کی یہاں سے منتقلی کے بعد سال میں ایک بار سیرت کانفرنس منعقد کرنے کے کام آتا تھا۔

ذاتی طور پر راجہ صاحب شریف النفس اور درد دل رکھنے والے انسان تھے اور ان کی ذات سے کسی قسم کا کوئی سکینڈل بھی وابستہ نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک معصوم بچے کی طرح ایک کھلونے پر دل ہار بیٹھے۔ ان کی معصوم سی خواہش تھی کہ وزارت ان کی ذاتی دلی خواہش کی تسکین اور تکمیل کے لئے سرکاری طور پر سلسلہ جنبانی شروع کرے۔ ظاہر ہے یہ کام سیکرٹری صاحب کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ موجودہ عمارت ہر لحاظ سے موزوں ہے۔ یہ بےشک کرائے پر حاصل کی گئی ہے لیکن یہ وزارت کے اپنے ذیلی ادارے کی ملکیت ہے اس لئے کرائے کے دوسرے دفاتر کے برعکس یہاں سے بیدخلی کا کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ سٹیٹ بنک کی عمارت میں ساری وزارت کا سمانا ممکن نہیں تھا۔ وزارت میں صرف حج کے ہی نہیں، تبلیغ و زیارت، زکات و عشر، ریسرچ، اقلیتی امور اور انتظامیہ کے بھی شعبے تھے۔ لیکن جب کوئی تصویر قلب و نظر میں سما جائے تو دلائل بیکار ہو جاتے ہیں۔

ایک وزیر صاحب کی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن وزارت مذہبی امور دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ نئی عمارت میں داخلے کا دروازہ اور زینہ ہر لحاظ سے شاہانہ تھا اور وزیر صاحب سے ملاقات کے لئے آنے والوں پر اس پرشکوہ محل کا بہت رعب پڑتا تھا۔ عام پبلک اور چھوٹے عملے کو ادھر سے گذرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ان کے لئے حسب مراتب عقبی راستہ استعمال ہوتا تھا۔

جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ راجہ صاحب کی چند ماہ کی شان و شوکت تمام ہوئی اور وزارت کو بدھو کی طرح پرانے گھر لوٹنا پڑا۔ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں کیونکہ میں اس وقت وہاں سے تبدیل ہو کر جا چکا تھا۔

1997ء کی حج پالیسی ملک معراج خالد والی نگران کابینہ نے منظور کی تھی اور اس کا اہم ترین فیصلہ یہ تھا کہ اس میں مفت حج پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بینظیر کے دور میں پارٹی کے جیالوں کو بنکوں اور مالیاتی اداروں کے خرچے پرحج کرایا جاتا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف ان بنکوں کے کھاتہ داروں اور حصہ داروں کا سرمایہ لوٹ لیا گیا تھا بلکہ ان کے خرچے پر حج ایک مذاق بن گیاتھا۔ نگران کابینہ نے فیصلہ کیا کہ حج بدل کے علاوہ حج صرف ذاتی وسائل سے کیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے نےضیاءالحق کے دور کی وہ روایت بھی ختم کردی جس میں درجہ چہارم کے ملازمین کو سرکار کے خرچ پر حج کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ اس اجتہادی فیصلے نے مفت حج کا باب کچھ عرصے کے لئے بند کردیا۔

حج پالیسی کی منظوری کے بعد ہزارہا سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور ہزاروں ہی اہداف مقرر ہو جاتے ہیں جن کا بروقت حصول ہی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں حج درخواستوں کی وصولی سے لے کر آخری فلائٹ کی وطن واپسی تک کی ہر کام شامل تھا اور جب تک یہ سرگرمیاں جاری رہتیں حج آپریشن بھی جاری رہتا۔ ان میں سے کچھ کام حج این جی او اپنے ذمے لے لیتیں جن میں سب سے اہم کام عازمین حج اور عملے کی تربیت تھی۔ یہ رضاکار وزارت سے صرف حج ویزے کے طلبگار ہوتے باقی اپنے لئے سفر خرچ اور زاد راہ یہ خود مہیا کرتے تھے۔

اب تو حج کا بہت سا کام پرائیویٹ حج آپریٹروں نے سنبھال لیا ہے جس کی وجہ سے حج کی آسائشیں اور اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ میرے دور میں سرکاری حج سکیم اور سپانسر شپ سکیم کے تحت حج ہوتا تھا جن کے لئے پانچ قومی بنک درخواستیں اور واجبات وصول کرتے، گروپ بناتے اور باقی کام وزارت کے کمپیوٹر سیکشن پر چھوڑ دیتے۔ وہیں سے گروپوں کے مطابق قرعہ اندازی، رہائش گاہوں، فلائٹوں اور پاسپورٹ ویزے کا انتظام ہوتا جس کا انچارج ہمارا انتھک ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری افتخار ہوا کرتا تھا۔ اس کام کے لئے وزارت کو پاکستان کمپیوٹر بیورو کی معاونت بھی حاصل ہوتی تھی۔

بنک “ہم خرما و ہم ثواب” کے مقولے پر عمل کرکے حج سے خوب پیسے کماتے اور معاہدے کے بر عکس حج واجبات کی رقم سرکاری خزانے میں منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے۔ کچھ یہ رقم بنکوں کی طرف سے دیر سے ملتی کچھ وزارت خزانہ یہ رقم جاری کرنے میں دیر کرتی جس کی وجہ سے رہائشی عمارات کے لئے اس کی ترسیل میں تاخیر ہو جاتی۔ اتنی دیر میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اچھی اور قریبی عمارات کرائے پر چڑھ چکی ہوتیں اور دور افتادہ عمارتوں کی وجہ سے وزارت اور حج مشن کو مفت میں گالیاں کھانا پڑتیں۔

ایک بار میٹنگ میں بنک والوں سے شکوہ کیا کہ وہ حاجیوں کی رقم اپنی ضروریات کے لئے استعمال کرتے اور اس کی ترسیل میں غیرضروری تاخیر کرتے ہیں۔ اس پر نیشنل بنک کے متعلقہ ایگزیکیٹو نے کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔

“توبہ کریں صاحب۔ ہم حاجیوں کی رقم کو استعمال کرنا حرام سمجھتے ہیں۔”

“آپ یا تو خود بیوقوف ہیں یا ہمیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور میری دانست میں دوسری بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیا حاجیوں کے پیسے آپ نے بنڈل بنا کر علیٰحدہ سے رکھے ہوئے ہیں اور حصول ثواب کے لئے دن میں تین بار ان کی زیارت کرتے ہیں۔ ارے بھائی جو روپیہ آگے نہ چلائے وہ گدھا تو ہو سکتا ہے بنکار نہیں۔”

بعد میں اپنے لہجے کی سختی پر میں بہت پشیمان ہوا لیکن بنک والوں پر سخت لہجہ بھی بے اثر ثابت ہوا تا انکہ ہم نے گورنر سٹیٹ بنک کی زنجیر عدل نہ ہلا لی۔

وزارت خزانہ کا حاجیوں کے پیسے پر کوئی حق نہیں تھا لیکن وہ اس رقم کو شیر مادر سمجھ کر سرکار کی روزمرہ ضروریات پر خرچ کرتی اور ہمیں رقم ارض مقدس بھیجنے کی اجازت تب ہی دیتی جب اس کا اپنی حالت قدرے بہتر ہوتی جس کو ان کی اپنی زبان میں “ویز اینڈ مینز پوزیشن” کہتے ہیں۔ رقم بھی کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ اس زمانے میں سال کے پانچ ارب روپے حج واجبات کی مد میں جمع ہوتے تھے۔ ذرا آگے جا کر ذکر ہوگا کہ حجاج سے کس کس کا مفاد وابستہ تھا۔

حج آپریشن کے سلسلے میں پیش آنے والی رکاوٹوں کا ذکر تو ہوتا رہے گا اور بعض بعض تو ایسی ایسی تھیں جنہیں دیکھ کر میرا جی اچاٹ ہوگیا اور میں اس ماحول میں گھٹن محسوس کرنے لگا۔ قریب تھا کہ میں راہ فرار اختیار کرتا کہ ایک دن مفتی لطف اللہ صاحب کا بلاوا آیا۔ ان کے پاس چھوٹی داڑھی میں چھریرے بدن کے ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ مفتی صاحب نے ایکدم پوچھا کہ آپ اب تک حاجیوں کے کسی مامے سے ملے ہیں۔ میں ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھنے لگا۔ پھر انہوں نے پوچھا۔

“تم شاعر آدمی ہو، باقی صدیقی کو تو جانتے ہوگے۔ ان سے ملو۔ باقی صدیقی کے گرائیں اور حاجیوں کے مامے بابو شفقت قریشی۔”

بزرگوار اپنے نام کی طرح سرتاپا شفیق تھے اور شفقت گویا ان کے ہر بنٍ مو سے پھوٹ رہی تھی۔ پہلی ملاقات میں ایسے لگا جیسے مفادات کے تعفن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا مشام جاں کو معطر کر گیا ہو۔ معلوم ہوا کہ اپنے بیٹے، بیٹیوں اور بزرگ اہلیہ سمیت حاجیوں کی بے لوث خدمت کرتے۔ آخری فلائٹ کی روانگی تک ان کا قیام حاجیوں کے ساتھ ہی ہوتا جہاں ہر روز تربیتی سیشن منعقد کراتے۔ مدینتہ الحجاج کے کھچا کھچ بھرے ہال میں جب لگ بھگ ایک ہزار عازمین کو تلبیہ کی مشق کراتے تو دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوجاتے۔ لبیک اللہم لبیک پڑھتے تو ایسے لگتا جیسے ان کا قلب جاری ہو گیا ہے اور ان کی پاٹ دار آواز براہٍ حرم پاک ساتوں آسمانوں کے پردے ہٹا کر اپنی اور جملہ حاضرین کی حاضری لگوا رہی ہے۔

(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” کا ایک باب)

(جاری ہے)