(دوسری قسط)
حسین ثاقب
تاریک رات میں جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، بغیر کسی روشنی کے قدم بڑھانا اور ہدف کو پہچان کر حملہ آور ہونا اس لفٹین کا مشن تھا۔ میں سوچ ریا تھا کہ لاہور، کراچی یا راولپنڈی میں اس کے ہم عمر اس تاریک اور خنک رات میں چھت پر برستی بوندوں کی جلترنگ سے تخلیق پانے والی دلنشین لوریوں میں خوابِ خرگوش کے مزے لے ریے ہوں گے جس وقت یہ اس تاریک وادی میں پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا ایک نامعلوم دشمن کا تعاقب کررہا تھا
اس وقت تو سمجھ نہیں آئی کہ جنرل صاحب محض وردی نہ پہننے پر اس قدر برافروختہ کیوں ہوئے لیکن آج جب میں مڑ کر دیکھتا ہوں توکئی نقطے آپس میں جوڑنے سے بات ذرا مزید واضح ہو جاتی ہے۔ “خاکی وردی لال لہو” معروف ناول نگار محترم عنایت اللہ مرحوم کی ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے جو اصل میں ان کے ایک اور بیسٹ سیلر “طاہرہ” کا سیکوئل ہے۔ حصہ اول کی کہانی کا تعلق غیرمنقسم ہندوستان کے مشرقی پنجاب کے ایک قصبے سے ہے جہاں کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان کے لئے تن، من اور دھن کی قربانیاں دیں اور آگ اورخون کے دریا عبور کر کے اپنی ارضِ موعود پاکستان پہنچے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے بوڑھے، بچے اور جوان پاکستان کے نام پر کٹ گئے اور ان کی عفت مآب خواتین اپنی آبروئیں بچانے کے لئےاندھے کنوؤں میں کود گئی تھیں۔ طاہرہ نامی لڑکی اسی ناول کا مرکزی کردار ہے۔
طاہرہ کی کہانی پر پاکستان ٹیلی ویژن نے “منزل” کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل بھی شروع کیا جس کا سکرپٹ شروع شروع میں منو بھائی نے لکھا لیکن چند قسطوں بعد احتجاجاً اس سے علیحٰدگی اختیار کرلی۔ ان کے احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ ٹی وی کے اربابِ بست و کشاد اس کہانی میں سے جذبہ اور تحریکِ آزادی نکال کر اسے عشق و محبت کے روائتی فارمولے کی نذر کرنا چاہتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ عنایت صاحب ٹی وی والوں کے اس رویے کی وجہ سے سخت آزردہ خاطر اور دل گرفتہ تھے۔ اس امید پر کہ ڈرامہ ناول کی کہانی پر مبنی ہوگا، وہ معاہدہ کرکے پہلے ہی اپنے ہاتھ کٹوا چکے تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ منو بھائی نے سکرپٹ لکھنے سے توبہ کیوں کی ہے۔ وہ تو میری منو بھائی سے کھاریاں پھاٹک کے فلائنگ کوچ ہوٹل میں حادثاتی ملاقات ہوئی تو اصل بات کا پتہ چلا۔ منو بھائی نے ہی بتایا کہ ٹی وی کی ایک مخصوص لابی تحریکِ پاکستان میں اہلِ پنجاب کی قربانیوں کو اجاگر کرنے کے خلاف تھی جو اس ناول کا اصل موضوع تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد عنایت صاحب نے طاہرہ کا سیکوئل لکھنے کا ارادہ کیا۔ عنایت صاحب کی دعوت پراس کا نام قارئین کی اکثریت نے تجویز کیا تھا جو ماہنامہ “حکایت” میں اسے قسط وار پڑھ رہے تھے۔
اس ناول کا مرکزی کردار طاہرہ کا لےپالک بیٹا ہے جو پاک فوج کا سپاہی ہے۔ طاہرہ کی تربیت کے زیرِاثر وطن کی حفاظت کے لئے خاکی وردی کو لال لہو سے آراستہ کرنا اس کی زندگی کا مشن ہے۔ ناول کی آخری قسط میں خاکی وردی اور لال لہو کا ذکر اس تواتر سے آیا کہ قارئین کے لئے نام کا فیصلہ کرنا مشکل نہ رہا۔ خاکی وردی اور لال لہو کے تعلق پر جب عنایت صاحب سے بحث ہوئی تو میں نے انہیں وہ واقعہ سنایا کہ کیسے میرے وردی نہ پہننے پر جنرل عالم جان محسود کی آنکھوں سے چنگاریاں برسی تھیں حالانکہ اس آتشیں برسات کے دوران میں ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں سرِمو بھی فرق نہیں آیا تھا۔
یہ ملاقات ہنگامہ خیز تو تھی لیکن ہنگامہ اٹھانے کی تہمت سے میں خود کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دے سکتا تھا۔ خیر اس ہنگامہ خیزی کے بعد فوجی زندگی کے معمولات شروع ہو گئے۔ وردی بھی سل گئی اور ڈی ایم ایس بوٹ بھی آ گئے۔ شروع شروع میں سی او صاحب کسی اور یونٹ کی ایکسرسائز میں ریفری یا امپائر بن کر جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے لیتے۔ یہ ایکسرسائز میرے لئے بھی تربیتی ایکسرسائز ثابت ہوتی۔ عام طور پر ایکسرسائز اندھیری رات میں ہوتی۔ میں بچپن سے تاریکی اور بلندی سے خوفزدہ تھا۔ ذرا سوچیں اونچے نیچے پہاڑوں اور ٹیکریوں پر رات کی تاریکی اور بسا اوقات بارش میں میرے خوف کا کیا عالم ہوتا ہوگا۔
میرے سی او صاحب بھی ایکسرسائز ایریا میں دبے پاؤں جاتے تھے۔ ان کا کام یہ دیکھنا تھا کہ فوجی دستوں نے حملہ آور ہونے میں یا دفاع یا تنظیمِ نو میں کوئی غلطی تو نہیں کی۔ فوج میں احکام مختصر، سلیس اور واضح ہوتے ہیں جن میں ابہام کی گنجائش نہیں ہوتی اور اکثر حالات میں ابہام نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جو دستہ ہمارے سامنے اسمبلی ایریا سے فارورڈ اسمبلی ایریا کی طرف جا رہا تھا اس کی کمان بیس بائیس برس کے نوجوان لفٹین کے پاس تھی اور وہ اپنے احکام جاری کرچکا تھا۔ یہ سینتیس جوانوں پر مشتمل ایک پلاٹون تھی جس کو اپنے کمانڈر کی قیادت میں ایسے چلنا تھا کہ ایک سیکنڈ کی تاخیر کئے بغیر اہنے ہدف پر پہنچ جائے۔
یہ خیال رہے کہ یہاں سے آگے مکمل خاموشی اخفائے عمل کا ضروری تقاضا ہے تاکہ دشمن پر اچانک حملہ کیا جاسکے۔ فوج میں اچانک حملہ یا سرپرائز اٹیک بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اگر آپ دشمن کو بے خبری میں جا لیں تو آپ آدھی جنگ جیت سکتے ہیں۔ فارورڈ اسمبلی ایریا میں باتیں کرنا، کھانسنا، چھینکنا یا سگریٹ سلگانا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔
یادش بخیر، ایک بار رات سونے سےقبل ہمارے ایک کمپنی کمانڈر صاحب نے کمپنی کو فال اِن کر رکھا تھا اور کوئی ضروری ہدایات جاری فرما رہے تھے۔ پچھلی صف سے ہلکی سی کھانسی کی آواز سنائی دی جس سے کپتان صاحب کی تقریر کی روانی میں خلل پڑا۔ وہ جزبز تو ہوئے لیکن ان کا کمانداری خطبہ جاری رہا۔ دوسری بار درمیانی صف سے کھانسی کی گھٹی گھٹی آواز سنائی دی۔ کپتان صاحب ذرا ناگواری سے رکے پھر چالو ہو گئے لیکن تیسری بار جب کوئی کھانسا تو انہوں نے تقریر روک دی۔
“کون ہے بے غیرت” وہ غصے سے دھاڑے،”کھانسی کو کنٹرول کرو۔”
اس کے بعد ایسی خاموشی چھائی کہ تنکہ گرنے کی آواز بھی سنائی دے۔ میں بڑا حیران ہوا کہ کیا کھانسی کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس اندھیری رات پہاڑ کے دامن میں فوجی پڑاؤ میں موت کی سی خاموشی طاری تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ جنگ کے ماحول میں کھانسی یا چھینک کو کنٹرول کرنا کتنا اہم ہے۔ صرف اسی پر ہارجیت اور زندگی اور موت کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ جوانوں کو اپنے کمانڈر کے اشارے کا انتظار تھا اور کمانڈر جو تازہ تازہ کاکول سے آیا تھا، گھڑی کی ٹک ٹک گن رہا تھا۔ اسے مقررہ وقت پر وہاں سے نکل کر دشمن پر جھپٹنا تھا۔ اسمبلی ایریا سے روانگی، فارورڈ اسمبلی ایریا میں اجتماع اور ایسے ہدف پریلغار، جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر تھا، ایک ایک سیکنڈ کی صحت کے ساتھ کرنا تھا۔ یہی کچھ دیکھنے کے لئے امپائر صاحب وہاں موجود تھے۔
میری حیثیت محض ایک تماشائی کی تھی لیکن میرا اعصابی تناؤ اپنے عروج پر تھا۔ معلوم نہیں اس نوخیز لفٹین اور اس کے جوانوں کا کیا حال ہوگا۔ تاریک رات میں جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، بغیر کسی روشنی کے قدم بڑھانا اور ہدف کو پہچان کر حملہ آور ہونا اس لفٹین کا مشن تھا۔ میں سوچ ریا تھا کہ لاہور، کراچی یا راولپنڈی میں اس کے ہم عمر اس تاریک اور خنک رات میں چھت پر برستی بوندوں کی جلترنگ سے تخلیق پانے والی دلنشین لوریوں میں خوابِ خرگوش کے مزے لے ریے ہوں گے جس وقت یہ اس تاریک وادی میں پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا ایک نامعلوم دشمن کا تعاقب کررہا تھا-
اس بات سے شاید آپ کو دلچسپی نہیں ہوگی کہ حملہ وقت پر ہوا یا نہیں، دفاعی انتظامات تسلی بخش تھے یا ہدف روند دیا گیا، جوابی حملہ کیسا ہوا اور امپائر نے کیا رپورٹ دی۔ میرے لئے یہ تجربہ اس لحاظ سے خوشگوار تھا کہ میں زندگی میں پہلی بار اندھیرے اور بلندی سے خوفزدہ نہیں ہوا ورنہ پہاڑ سے اترنا اور قدم پھونک پھونک کر رکھنا میرے لئے جان لیوا ہوا کرتا تھا۔
فجر سے کچھ پہلے واپس یونٹ پہنچے اور صبح کو معمول کے مطابق تیار ہوکر روزمرہ کے کام کاج میں مصروف ہو گئے۔ آج میں نے ماحول میں کچھ تناؤ محسوس کیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ساتھی افسر مجھ سے بات کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ ٹی بریک میں بھی یہی ہوا۔ شام کو نہ کوئی مجھے بلانے آیا اور نہ کوئی تاش کی بازی میں مجھے شریک کرنے کو تیار ہوا حالانکہ یہ سب کے لئے منافع بخش کھیل تھا۔ جو کوئی بلیک کوئین ہارتا اگلے روز بھنی مرغی کھلاتا۔ مرغی بھی دیسی جو میس احوالدار سماہنی سے خرید کر لاتا تھا۔
میرے لئے یہ صورت حال عجیب بھی تھی اور تکلیف دہ بھی۔ پہلے کی طرح اس بار بھی میں نے اپنے گُورو کیپٹن ڈاکٹر صادق میمن سے بات کی۔ وہ ساری صورت حال سے واقف تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال میری طرح ایک سویلئن افسر یونٹ سے منسلک ہوا تھا۔ وہ سارا وقت نوجوان افسروں کے حلقے میں بیٹھا گپ شپ میں شریک رہتا۔ یہ خیال رہے کہ اس طرح کی محفلوں میں مرغوب ترین موضوع بالعموم یونٹ کا کمانڈنگ افسر ہی ہوتا ہے کیونکہ صرف وہی ان محفلوں سے باہر ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ پیٹھ پیچھے سینئر افسران کی ذات والا صفات کو موضوع سخن بنانا جونیئر افسران کا پیدائشی حق ہے کیونکہ اس سے سینے کے اندر جمع شدہ سٹیم خارج ہوتی رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ کریں تو سینئر افسران کے سامنے خودکش بمبار کی طرح پھٹ جائیں۔ سینئر افسروں کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی پیٹھ پیچھے کیا ہو رہا ہے کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی۔ ہمارے ممدوح سی او صاحب تو نوجوان افسروں میں معمول سے زیادہ ہی مقبول تھے۔ نوجوان اپنے سویلئن ساتھی کو اپنا سمجھ کر اس کے سامنے ہی دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میرے پیشرو عموماً سی او صاحب کے ساتھ شام کی واک پر جاتے، جسے کوہ پیمائی کہنا زیادہ مناسب ہوگا، اور نوجوان افسروں کے حلقے کی ساری روئیداد ان کے گوش گذار کر دیتے تھے۔ سی او صاحب بجائے اس کے کہ بات کو ہنسی میں اڑا دیتے، ایک ایک تفصیل پوری دلچسپی سے سنتے اور پھر اس کا نتیجہ نوجوان افسروں کو بھگتنا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ چونکہ آپ کل شام سے سی او کے ساتھ ہیں اس لئے نوجوان افسروں کو پورا یقین ہے کہ ضرور آپ نے بھی ان کے کان بھرے ہوں گے۔ ان سب نے ایکا کر لیا ہے کہ آپ کو ایک فاصلے پر رکھیں گے۔ میں ہنس پڑا اور اگلی شام ان سب سے فرداً فرداً مل کر انہیں یقین دلایا کہ میرے بارے میں بے فکر رہیں۔ چونکہ دن سکون سے گذرا تھا اس لئے انہیں میری بات پر یقین آگیا۔
اس سے تقریباً دس سال بعد کا ذکر ہے، میرے محکمے کے ایک بڑے افسر کو، جو حلئے سے دیندار لگتے تھے، ایسے عہدے پر فائز کر دیا گیا جس میں جونئیر افسروں کی تقدیر بمعنی پوسٹنگ ٹرانسفر کے اختیارات ان کے ہاتھ میں آ گئے۔ جو اس سے پہلے تک ہنس مکھ، ہمدرد اور شفیق تھے ان کے منہ سے بات بے بات کف جاری ہونے لگا اور ان کی آواز آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ ماتحتوں کو پل بھر میں بےعزت کرنا ان کا محبوب مشغلہ ٹھیرا۔ ایک روز رات کو فون کرکے انہوں نے مجھے گھر سے طلب کیا اور سلام کا جواب دینے کی بجائے فوراً ہی چیخ کر بولے کہ میں نے سنا ہے تم میرے خلاف باتیں کرتے ہو۔ چونکہ فون پر طلب کرتے ہوئے میرے کسی بچے کے ساتھ بدتمیزی سے بات کر چکے تھے اس لئے میرا بھی ان کے ساتھ تحمل سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
میں نے کہا کہ جناب آپ نے بالکل درست سنا ہے۔ میں بھی آپ کو وہی گالیاں دیتا ہوں جو آپ اپنے دورِ صحرانوردی میں ہمارے سامنے بیٹھ کر اپنے پیشرو کو دیا کرتے تھے۔ میرے لہجے سے انہیں اندازہ ہوگیا کہ شاید وہ آج مجھے نہ ڈرا سکیں۔ انہوں نے پھر کہا کہ میں انہیں ماں بہن کی گندی گالیاں دیتا ہوں جو انہیں بتانے والے نے اپنے کانوں سے سنی ہیں۔ میں نے کہا حضور ، میں نے بس اتنا کہا تھا کہ مولوی اختیار ملتے ہی فرعون بن گیا ہے۔ اگر کسی نے اس سے زیادہ بتایا ہے تو اس نے اپنی ذاتی گالی میرے نام سے منسوب کرکے آپ کو دی ہے۔ وہ منہ سےتو کچھ نہ بولے لیکن ان کے چہرے سے صاف لگ ریا تھا کہ ان کے دل پر کیا گذر رہی ہے۔ ان کے بس میں میں ہوتا تو مجھے گولی مار دیتے۔ انہوں نے کلک کلک کر کے اپنا غصہ اس مشینی تسبیح پر اتارنا شروع کردیا جو ان کی انگشتِ شہادت اور انگوٹھے کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ موصوف نے بعد میں پیغام بھجوایا کہ تمہیں اندازہ نہیں میں تمہارے ساتھ کیا کر سکتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا ایمان اس بات پر پختہ ہے کہ صاحبِ قضاوقدر کی منشا اور مرضی کے بغیر کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
خدا خدا کرکے میرے فوجی ساتھیوں کا اعتبار بحال ہوا اور زندگی اہنے معمول کی طرف لوٹ آئی۔ ان معمولات میں چارلی کمپنی میں جا کر جوانوں کے ساتھ سب مشین گن اور جی تھری کے ساتھ نشانہ بازی کی مشق کرنا بھی شامل تھا۔ نشانہ بازی کے لئے دری کے ٹکڑے پر لیٹ کر اور بائیں آنکھ میچ کر گولی چلانی پڑتی ہے۔ گولی روائتی بیل کی آنکھ میں لگ جائے تو واہ واہ ورنہ آنکھ کے آس پاس لگے تو بھی نشانہ قریب قریب سچا ہی سمجھا جاتا ہے۔
میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں نے زندگی بھر کبھی کسی کو آنکھ نہیں ماری تھی اس لئے بائیں آنکھ میچنا بہت مشکل تھا۔ پریکٹس شروع کی تو صرف دائیں آنکھ ہی بند کر پایا۔ لیکن اس کے لئے ہتھیار کو الٹی طرف تھامنا پڑا۔ جب اس سے بھی بات نہ بنی تو بائیں آنکھ کو کپڑے سے ڈھک کر قسمت آزمائی کی۔ اب مشین گن کی نال سے جو گولی نکلی وہ بیل کی آنکھ کے عین چھ بجے کوئی ایک فٹ دور پیوست ہوئی۔ جوانوں نے تالیاں بجائیں جو بظاہر حوصلہ افزائی کے لئے تھیں لیکن مجھے لگا وہ دل ہی دل میں میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ تھوڑی سی کوشش اور گولیاں ضائع کرنےکے بعد تھوڑی بہت عزت بحال ہو گئی۔
فوج میں پیشہ ورانہ تربیت ایک جہدِ مسلسل ہے اور ایک پلٹن کی ساری کمپنیاں باری باری ٹریننگ کمپنی میں منتقل ہوتی رہتی ہیں تاکہ افسروں اور جوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ نہ لگے۔ تربیت کے آخر میں زبانی امتحان بھی ہوتا ہے جو عام طور پر کسی دوسری پلٹن کا افسر لیتا ہے۔ اس امتحان میں بعض جوانوں پر وہ کیفیت بھی طاری ہو جاتی ہے جسے عام فوجی کی زبان میں “شرفو” کہتے ہیں۔ شرفو کی کیفیت ایسے ہی ہے جیسے کسی انٹرویو کے دوران انسان نروس ہو جائے اور انٹ شنٹ جواب دینے لگے۔
ہر انفنٹری بٹالین کئی کمپنیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر کمپنی میں کئی پلاٹونیں ہوتی ہیں۔ یوں تو ساری بٹالین ہی خطِ متارکۂ جنگ یا لائن آف کنٹرول پر تھی لیکن اس کی کچھ کمپنیاں عین دشمن کے سامنے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھی تھیں۔ ان پوسٹوں پر تعینات جوان دشمن کے جوانوں کا حال چال بھی دریافت کر لیتے، ان میں گالیوں کا تبادلہ بھی ہوتا اور زیادہ کشیدگی میں حالات فائرنگ کے تبادلے تک بھی پہنچ جاتے اگرچہ ہماری طرف کے کمانڈر صورت حال کو اشتعال انگیزی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ رات کو بعض اوقات عین لائن آف کنٹرول پر گشت بھی ہوتا جسے فائیٹنگ یا ریکی پٹرول کہتے تھے۔ پٹرول پارٹی بھی دشمن کے فائر کی زد میں ہوتی ہے۔
ہمارے بٹالین ہیڈکوارٹر سے فارورڈ پوسٹیں بالکل سامنے نظر آتی تھیں لیکن پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں کی مسافت کم سے کم دو گھنٹے طویل تھی۔ پروگرام بنا کہ باری باری ان پوسٹوں تک سفر کیا جائے تاکہ علاقے سے واقفیت بھی ہو اور جوانوں سے ملاقات بھی ہوتی رہے۔ یہ جوان وہاں کئی کئی ہفتے تعینات رہتے ہیں اور مہمان ان کے لئے حقیقی معنوں اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ سیکنڈلیفٹننٹ نوید شامی جو چند روز قبل ہی کاکول سے فارغ ہو کر آیا تھا، میرا ہمراہی بنا کیونکہ علاقے کے ایک ایک چپے سے آگاہی اس کے فرائض میں شامل تھی۔
اب سفر کی نوعیت کچھ یوں بنی کہ ایک پہاڑ اترتے تو دوسرا سامنے سر اٹھائے کھڑا نظر آ تا۔ ہمارا حال بھی وہی تھا جو منیر نیازی کا دریا پار کرنے کے بعد ہوتا تھا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دو گھنٹے کی کوہ پیمائی کے بعد جب پوسٹ پر پہنچے تو جوانوں نے حسبِ توقع نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا۔ بےحد میٹھی چائے، پکوڑوں اور آلو کے چپس کی تواضع نے جسم و روح کو تر و تازہ کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ہر پوسٹ پر مہمان نوازی کا سٹینڈرڈ مینو ہے۔ یہ موقع ہمارے لئے جنگل میں منگل کا سا تھا۔ سامنے کچھ گز کے فاصلے پر دشمن کی پوسٹ نظر آ رہی تھی۔ میں نے پوسٹ کمانڈر سے پوچھا کہ دشمن کے فوجی نظروں کے سامنے ہوں تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔
“ہم تو ان کو ساتھی کہہ کر گپ شپ لگا لیتے ہیں صاحب لیکن ایک بار ہاتھ رائفل پر بے قابو ہوتے ہوتے رہ گیا۔ دل کرتا تھا ایک ایک کو اڑا دوں لیکن آپ لوگ کہتے ہو صبر اور تحمل سے کام لو۔”
“ایسی کیا بات ہو گئی تھی؟”
“ان کا ایک نوجوان افسر بائنو (دوربین) لگا کر نیچے ندی میں نہانے والی کشمیری لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں گولی تو نہ چلا سکا لیکن گالیاں دے دے کر اس کی ماں بہن کو ننگا کردیا۔ میں نے رائفل بھی سیدھی کر لی تھی جس پر وہ لونڈا وہاں سے بھاگ گیا۔ بعد میں صوبیدار صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا تم سینئر این سی او ہو، غصے کو کنٹرول کرو۔”
“تم بھی بائنو لگا کر ان کی عورتوں کو دیکھ لیتے۔”
“ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں صاحب۔ ادھر کی عورتیں بھی تو اپنی ہی ہیں۔ یہاں ایل او سی کے دونوں طرف اپنے ہی لوگ بستے ہیں۔ یہی تو مسئلہ ہے۔ ان ہندوستانی فوجیوں کے لئے کشمیر دوسرا ملک ہے لیکن ہمارے لئے تو اپنا ہے۔”
اس روز واپسی میں کمپنی ہیڈکوارٹر جاکر کمپنی کمانڈر کیپٹن ناصر احمد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب ہم مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے خنجر پہاڑ پر چڑھ رہے تھے تو سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔
“نوید، ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔” میں نے اپنے ہمراہی سیکنڈ لیفٹننٹ نوید شامی سے پوچھا۔ ” جب سے یہاں آیا ہوں روزانہ کوہ پیمائی کرتا ہوں۔انجان راستوں پر اکیلا بھی جاتا ہوں۔ اس حال میں بھی کہ سامنے دشمن کی پوسٹ بھی نظر آرہی ہوتی ہے۔ رات کے وقت صرف ایک لاٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے اور کبھی کبھی ایک ٹارچ بردار جوان ساتھ ہوتا ہے لیکن نہ کبھی بدن تھکا، نہ بوریت محسوس ہوئی اور سب سے بڑا انقلاب یہ آیا کہ مجھے کبھی بھی خوف محسوس نہیں ہوا حالانکہ مجھے بلندی،تاریکی، سانپ اور تنہائی کا فوبیا ہے اور پھر دشمن بھی دور نہیں۔”
“آپ کے لئے اصل رسک یہ ہے کہ آپ اصلی فوجی نہیں صرف وردی پوش ہیں۔” اس نے شرارت سے کہا۔ ” آپ کو دشمن اٹھا کر لے جائے تو آپ کو ریڈ کراس بھی نہیں چھڑوا سکتی کیونکہ آپ پر جینیوا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ آپ کو جاسوسی کے الزام میں کال کوٹھڑی میں پھینک کر بھول جائیں گے۔ حیرت ہے آپ پھر بھی بے خوف ہیں۔”
“اسی بات کی تو حیرت ہے کہ اب مجھے کسی چیز سے بھی ڈر نہیں لگتا۔ کسی درندے یا موذی جانور سے بھی نہیں۔ حتیٰ کہ سانپ سے بھی نہیں جو یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔”
میری بات سن کر وہ سنجیدہ ہو گیا۔
“آپ کو پتہ ہے جو جوان ڈیوٹی کے بعد جنگل میں زمین پر بستر بچھا کر سوتے ہیں صبح ان کی گراؤنڈ شیٹ کے ساتھ سانپ لپٹے ہوتے ہیں لیکن وہ پھر بھی خوفزدہ نہیں ہوتے، بالکل آپ کی طرح۔”
ایسا کیوں ہے، میں نے پوچھا۔
“یہ خاکی وردی کا کرشمہ ہے سر، خاکی وردی دل سے ہر خوف دور کردیتی ہے”۔ نوید نے اشفاق احمد کے بابوں کی طرح جواب دیا حالانکہ عمر میں وہ مجھ سے بھی پانچ سال چھوٹا تھا۔
(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” کا ایک باب)
(جاری ہے)