آرمی اٹیچمنٹ: تین ماہ کا تعلق اور عمر بھر کا رومانس-3

AK

“آپ رات کو پٹرول پارٹی بھیجتے ہی کیوں ہیں؟ اس طرح تو جوانوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔”

“یہ بارڈر ہے پارٹنر اور سامنے دشمن ہے۔” انہوں نے میرے احمقانہ سوال کا جواب نہایت تحمل سے دیا۔ “پٹرول پارٹی تو بھیجنی پڑتی ہے تاکہ بے خبری میں نہ مارے جائیں۔ ہم لوگ یہاں ماں کے گھٹنے سے لگ کر نہیں بیٹھتے۔”

(تیسری قسط)

حسین ثاقب

دن بھر کی کوہ پیمائی کے بعد جب اپنے بنکر میں داخل ہوا تو ڈاکٹر صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ انہوں نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ اس وقت عالم یہ تھا کہ سردی کے باوجود میری وردی پسینے میں تر تھی اور جرسی بھی ایک فالتو بوجھ محسوس ہو رہی تھی لیکن سانس کی رفتار نارمل تھی جس کی وجہ سے دل کی دھڑکن بھی معمول پر تھی۔

“آج تو لگتا ہے انقلاب آگیا ہے یا سورج مغرب سے نکلا ہے۔” ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ان کی آنکھوں میں ناچتی شرارت لالٹین کی مدقوق روشنی میں بھی صاف نظر آرہی تھی۔

“آج کون سی نئی بات ہوگئی ہے سر”۔ ان کے اس خلافِ معمول اور عجیب و غریب رویے کی وجہ میرا دماغ الجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ ان کی چائے اور جلیبیوں کے لئے روز کی مشقت کے طفیل سانس کا پھولنا تو کب کا ختم ہو چکا۔ اب تو لگتا ہے ہمالیہ بھی سر کر سکتا ہوں۔

“ہاں اتنے دنوں کی خاطر مدارات سے فرق تو پڑا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ تم ڈھینگیں مارنا شروع کردو۔ اب غور سے سنو تمہارے لئے سی او صاحب نے خصوصی حکم جاری کیا ہے۔”

“پارٹ ون؟”

“ارے نئیں یار، لیکن ویسا ہی سمجھ لو۔”

پتہ چلا کہ میری کوہ پیمائی کی پہلی اور دن بھر کی طویل مہم پر سی او صاحب بھی مشوش تھے۔انہوں نے میس احوالدار کو خصوصی طور پر حکم جاری کیا کہ سویلین افسر کو واپسی پر نمک ملے گرم پانی سے غسل کرایا جائے۔ اس وقت بیٹ مین آگ پر پانی کا کنستر رکھے میرا انتظار کر رہا تھا۔ وہاں اینٹوں کے چولہے میں پھونکوں سے دہکائی گئی خشک ٹہنیوں کی آگ اور گھی کے خالی کنستر سے افسر میس کے گیزر کا کام لیا جاتا تھا وہ بھی خوشگوار موسم کی صورت میں۔ بارش میں اس عیاشی کی گنجائش نہیں تھی۔

میں نے پوچھا کہ نمک ملے گرم پانی سے کیا ہوگا؟

” تمہارے سفر کی تکان دور ہو جائے گی اور تمہارے مسلز اپنی جگہ پر واپس آجائیں گے۔”

یہ ان کی مہربانی تھی جس پر میرا دل تشکر کے احساس سے لبریز ہو گیا۔ البتہ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے میرے ہمراہی کے بارے میں ایسی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ میں نے گورو سے اس خصوصی امتیاز کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ کاکول سے تازہ وارد نیم لفٹین اس رحمدلی کا محتاج نہیں۔ فوج کی ٹریننگ نے اس کے جسم کو پتھر بنا دیا ہے۔

“تم سول سروسز اکیڈمی کی پی ٹی اور کھیل کود کا ذکر تو کرتے ہو لیکن اس کے بل پر خود کو تیس مار خان سمجھ لینا مناسب نہیں”۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے واپس اوقات میں لانا شروع کر دیا۔ “میں نے تو سوچا تھا کہ تمہیں گرما گرم چائے کے ساتھ پیراسٹامول کی دو گولیاں کھلا دوں گا کیونکہ دن بھر کی مہم جوئی اور وہ بھی پہلی بار تمہارے لئے بہت زیادہ ہے اور تم بیمار بھی ہو سکتے ہو۔”

انہوں نے بتایا کہ کرنل صاحب کا بھی خیال ہے سویلین بڑے نازک ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میرے اوپر گرم نمکین پانی کے غسل کا دیسی ٹوٹکا آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً غسل کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ٹھنڈا ہونے اور درد شروع ہونے سے پہلے ہی بدن کی ٹکور ہو سکے۔

دیسی ٹوٹکے کے نام پر دماغ میں گھنٹی سی بجی۔ ایک بازگشت سی سنائی دی کہ دو دن پہلے بھی موصوف کسی میجر صاحب کو ٹیلیفون پر مہروں کے کسی درد کے علاج کے لئے دیسی ٹوٹکا بتا رہے تھے جو ان کے بقول ان کا اپنا آزمودہ نسخہ تھا۔ ان کے والد محترم انہیں دیسی گھی میں دیسی گڑ ملا کر کھلاتے اور پھر ان سے دوڑ لگوایا کرتے تھے جس سے ان کی کمر کا درد بالکل غائب ہوگیا۔ دیسی گڑ بھی وہ جو مویشیوں کو کھلاتے ہیں اور جس کی گرم تاثیر سے ہر قسم کا درد منٹوں میں غائب ہو جاتا ہے۔

اس زمانے میں فیلڈ ٹیلیفون پر بات کرنے کے لئے کھلونے یا گراموفون کی طرح چابی بھرنی پڑتی تھی۔ جتنی چابی بھری رام نے اتنا چلے کھلونا۔ اس فون سے آپ ایک وقت میں یا بات کر سکتے یا سن سکتے تھے۔ دونوں کام بیک وقت کرنے کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ہمارے ممدوح نے نادیدہ مخاطب کو جلدی سے مجرب نسخہ بتایا اور چابی بھرے یا جواب سنے بغیر فون بند کردیا۔ میں نے یہ ٹوٹکا ڈاکٹر صاحب کو یاد کراکے ان سے پوچھا کہ کیا اس سے مہروں کا درد ٹھیک ہو سکتا ہے؟

“بٔل شِٹ۔” ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ً میں نے ایسا علاج نہیں سنا۔ وہ دراصل اپنے میجر صاحب کو طبی رخصت سے واپس بلانا چاہتے ہیں لیکن بے بس ہیں کیونکہ اس نوعیت کی چھٹی میں ان کا نہیں ڈاکٹر کا حکم چلتا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ کمردرد کا بہانہ ہے۔ میجر صاحب ڈاکٹروں سے چھٹی لے کر دراصل سٹاف کالج انٹری امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔”

کوئٹہ کا کمانڈ اینڈ سٹاف کالج پاکستان کا قدیم ترین اور معتبر ترین تربیتی ادارہ ہے جہاں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے فوجی افسر تربیت حاصل کرتے ہیں۔ تربیتی کورس کے لئے افسروں کا انتخاب مقابلے کے ایک سخت امتحان کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایک فوجی افسر کی پیشہ ورانہ زندگی میں سٹاف کورس سب سے مشکل اور سب سے اہم سنگ میل ہے۔ سٹاف کورس میں ایک افسر کی کارکردگی کو دیکھ کر آپ اس کے مستقبل کی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔

“بالفرض اگر وہ انٹری امتحان کے لئے ہی چھٹی پر ہیں تو اس صورت میں بھی کرنل صاحب کو خوش ہونا چاہئے۔” میں نے کہا۔ “کیا یہ بات یونٹ کے لئے قابل فخر نہیں کہ ان کا ایک افسر سٹاف کورس کے لئے منتخب ہونے جا رہا ہے؟ اپنے ذاتی سٹاف کورس کا تو وہ بڑے فخر سے تذکرہ کرتے ہیں۔”

یہ ایک کم عمر بٹالین تھی۔ ایک بار اس کے جتنے افسروں نے سٹاف کالج کے لئے امتحان دیا وہ سب کے سب کامیاب ہوئے۔ یہ سو فیصد کامیابی اس کے فخرومباہات کے توشہ خانے میں اتنا بڑا اضافہ تھی کہ انہوں نے اسے پلٹن کا سلوگن بنا لیا۔ گورو نے میرے سوال کا براہ راست جواب تو نہیں دیا لیکن میں اپنی عقل کے مطابق یہی سمجھا کہ خود یہ اعزاز حاصل کرنے والے دوسروں کو اس کا مستحق نہیں سمجھتے۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔

پتہ نہیں کیا ہوا کہ ڈاکٹروں نے مذکورہ میجر صاحب کو فٹ قرار دے دیا اور وہ چند دنوں بعد واپس اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ میرے گورو نے مجھے بتایا تھا کہ میجر سید عبدالمتین نہایت نفیس انسان ہیں اور خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں۔ اتفاق سے میں نے بھی انہیں ایسا ہی پایا۔ وہ بٹالین ہیڈکوارٹر پہنچے اور ایک آدھ دن ہمارے پاس ٹھہرے۔

“میں نے سنا ہے آپ سٹاف کالج انٹری ایگزام دے رہے ہیں۔ وش یو بیسٹ آف لک۔”

“زبانی کہنے سے کام نہیں چلے گا پارٹنر۔” انہوں نے بی تکلفی سے کہا۔ “خلوص کا عملی مظاہرہ کرنا پڑے گا۔”

“جو حکم سر، لیکن کیسے؟”

“یار تم سویلین افسر پڑھنے لکھنے میں ہم فوجیوں سے زیادہ تیز ہوتے ہو۔” انہوں نے بتایا۔” تمہیں ملٹری ہسٹری کی کتابیں پڑھ کر میرے ساتھ بحث مباحثہ کرنا پڑے گا تاکہ مجھے خود سے وہ کتابیں نہ پڑھنی پڑیں اور مجھے دوسرے مضامین کی تیاری کے لئے وقت مل جائے۔ کتابیں میں نے اکٹھی کر لی ہیں۔

“آپ کی کمر درد کیسی ہے؟”

“پہلے ایک بات بتاؤ۔” انہوں نے رازداری سے پوچھا۔ “کیا تم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ میں ڈام لگا رہا ہوں؟”

پنجابی زبان میں مکر کرنے کو ڈام لگانا کہتے ہیں۔ میں نے غیرارادی طور پر اثبات میں سر ہلادیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد پوچھا کہ آپ خود ہی بتا دیں کہ حقیقت کیا تھی۔ انہوں نے جواب دینے سے پہلے ایک نوجوان افسر کی طرف دیکھ کر اور میری طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ پچھلے سال والے کی طرح تو نہیں۔ اس نے جواب میں پتہ نہیں کیا اشارہ کیا کہ میجر متین نے زوردار قہقہہ لگایا اور مجھ سے کینے لگےکہ یہاں کمردرد سے بھی زیادہ تکلیف دہ بیماریاں ہیں۔ اور بات ایک اور زوردار اجتماعی قہقہے میں ٹل گئی۔

کسی زمانے میں یہ تآثر عام تھا کہ فوجی بس ایف اے پاس ہوتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں جب ٹھیک سے داڑھی مونچھیں بھی نہیں نکلتیں، آپ ایک کیڈٹ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی توقع رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ غلط فہمی بھی عام تھی کہ سی ایس ایس کرنے والے بہت لائق فائق ہوتے ہیں۔ ان دونوں مفروضوں کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ لیاقت ایک انفرادی وصف ہے اس کا کسی قوم قبیلے سے کوئی تعلق نہیں۔

اول الزکر کی کاکول کی فوجی اور جسمانی تربیت اپنی جگہ، وہ وہاں باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے اور یونیورسٹی کا امتحان دے کر بی اے کی ڈگری لیتے ہیں۔ وہ میجر رینک میں پہنچ کر سٹاف کالج کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ناکام ہونے پر مزید ترقی حاصل کرنے کی بجائے ریٹائر کر دئے جاتے ہیں۔ فوج میں ترقی کا زینہ تعلیم و تربیت ہے۔ سینئر رینک میں جانے کے لئے وار کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی تعلیم اور اس میں امتیاز حاصل کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ یہیں سے فوجی افسر ایم ایس سی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ جو زیادہ لائق فائق ہوتے ہیں انہیں باہر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ حقیقت میں مذکورہ تمام اداروں میں انتہائی سخت مقابلے کا ماحول ہوتا ہے۔ مجھے خود نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں فوجیوں کے ساتھ تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے اور مجھے علم ہے کہ ایک سال کے تربیتی دورانئے میں انہیں مکمل بن باس لینا پڑتا ہے۔ اس میں وہ اپنی فیملی کو بھی نظرانداز کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اس تربیتی بن باس کی تفصیل پھر کبھی سہی، میں تو میجر متین کی اس غلط فہمی کا مزہ لے رہا تھا کہ سویلین افسر فوجیوں سے زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان میں پاس ہونے اور پھر مقابلے میں منتخب ہونے کے لئے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن وہ محنت کتابیں پڑھنے اور ان میں لکھا ہوا یاد رکھنے کی حد تک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا مقابلے کے امتحان کا نظام ذہانت اورقوت فیصلہ سے زیادہ انگریزی دانی سے متآثر ہوتا ہے۔ انگریزی دانی اچھی چیز ہے لیکن یہ فطانت اور دوسرے شریفانہ اوصاف کا نعم البدل نہیں ہو سکتی جو بیوروکریسی میں نظام مملکت چلانے کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر موجود ہونے چاہئیں۔

میجر متین کو جس کمپنی کی کمان سونپی گئی وہ عین لائن آف کنٹرول پر تعینات تھی۔ دشمن سے فاصلہ بھی یوں سمجھیں کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے جتنا تھا بلکہ شاید اس سے بھی کم۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں اس کمپنی کی ایک پوسٹ پر نوید شامی کی ہمراہی میں جا چکا تھا۔ اب میری اٹیچمنٹ کا اگلا مرحلہ ان پوسٹوں پر قیام کا تھا۔ اس کا فیصلہ بھی ایک دو روز میں ہو گیا کہ سب سے پہلے میجر متین کی کمپنی میری میزبان ہوگی۔

“لائن آف کنٹرول پر کبھی گالیوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور کبھی گولیوں کا۔” ایجوٹنٹ نے مجھے جانے سے پہلے بریف کیا اور پھر پوچھا۔”گھبرا تو نہیں جاؤگے؟”

“سر آپ نے پنجاب یونیورسٹی کے گیارہ نمبر ہوسٹل کا نام کبھی سنا ہے؟” میں نے پوچھا اور جواب ملنے سے پہلے ہی کہا۔ “میرا خیال ہے نہیں سنا ہوگا۔ مجھے اس ہوسٹل میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے گالیوں کی ٹریننگ وہیں سے حاصل کی ہے۔ امید ہے گالی باری میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا اور پھر دشمن کے راجپوتانہ رائفلز کے جوان پنجابی گالیوں کے سامنے جم کر کھڑے نہیں ہو سکتے۔”

جو اصحاب میرے زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے گیارہ نمبر ہوسٹل اور اس کے سامنے واقع چار نمبر ہوسٹل میں قیام کر چکے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ لوڈشیڈںگ کی ماری اندھیری رات میں نت نئی گالیوں کا تبادلہ کیا سماں باندھتا ہے۔ میرے صحافت کے ایک رفیق جو خود بھی ہوسٹل کے مقیم تھے، نہایت ہی مقفع، مسجع اور مرصع گالیوں کے موجد تھے۔ اعلیٰ درجے کے شہ دماغ صحافی اور شاعر۔ نام ان کا سحر صدیقی ہے اور افریقہ کے جنگلوں اور صحراؤں کی خاک چھانتے چھانتے آج کل اردو کے ایک روزنامہ سے منسلک ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کس سے کہاں کوتاہی ہوئی ورنہ وہ آج شہرت کے آسمان پر آفتاب کے مثل فروزاں ہوتے۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔ وہ اگر سجاد باقر رضوی کے الفاظ میں اپنی سوانح عمری بیان کرتے تو وہ کچھ یوں ہوتی۔

اے خردمند سن، ہم بھی دو بھائی تھے، وہ جو شاہ بنے ہم جو رسوا ہوئے

وہ اُدھر لعل و گوہر میں تُلتے رہے، ہم اِدھر لعل و گوہر اگلتے رہے

یادوں کو قلمبند کرنے بیٹھوں تو بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں یادیں بھی ایسی لاڈلی ہیں کہ اپنی باری کا انتظار نہیں کرتیں، مچلنا شروع ہو جاتی ہیں اور توجہ نہ ملنے پر منہ بسور لیتی ہیں۔ اس لئے کہانی پٹڑی سی اترتی رہتی ہے۔

مجھے یہ تسلی تھی کہ چونکہ میں کچھ روز ہوسٹل نمبر گیارہ میں رہ چکا ہوں اس لئے آتشِ دشنام سے دشمن کو خاکستر کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ میں ہوسٹل کا باقاعدہ مکین تو نہیں تھا لیکن بعض اوقات تعلیمی اور بعض اوقات غیرنصابی سرگرمیوں کے سلسلے میں ہوسٹل میں قیام کرنا پڑتا تھا جہاں میرے میزبان بعض اوقات میرے سوشیالوجی کے سینئر اقبال طارق اور شیخ سردار اور بسا اوقات میرے ہم جماعت رفیق شاہد اور منظور ہوتےتھے۔ پتہ نہیں سب لوگ منظور کو باؤ منظور کیوں کہتے تھے۔

میں کمپنی کمانڈر کے پاس نہالہ پہنچا تو شام گہری ہو رہی تھی۔ میجر صاحب نے قریبی گاؤں سے مرغی منگوا کر میری دعوت کا انتظام کر رکھا تھا۔ یہ خیال رہے کہ ایسی جگہوں پر افسروں کے لئے علیحٰدہ سے میس کا اہتمام نہیں ہوتا۔ وہ بھی جوانوں کے لنگر سے کھانا منگوا کر کچے کمرے کے بنکر میں چارپائی کے سامنے تپائی رکھ کر اس پر ڈنر تناول کرتے ہیں۔ کھانے کے بعد دیواری کیل سے اتار کر اسی تپائی پر چہرے کے عین سامنے لا کر لالٹین رکھ دی جاتی ہے تاکہ مطالعے کے رسیا رات میں بھی اپنا شوق پورا کر سکیں۔ صبح کے وقت صاحب لوگ شیو بھی اسی تپائی پر بناتے ہیں۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹائلٹ میں فلش سسٹم کا کوئی تصور نہیں۔ وہاں وہی پرانا ڈرائی سسٹم چلتا ہے۔ یہ ایسے ٹائلٹ ہیں جن میں اخبار رسالے بھی نہیں لے جا سکتے کیونکہ اندھیرا ہوتا ہے اور پھونک پھونک کر بلکہ سونگھ سونگھ کر قدم رکھنا پڑتا ہے اور پھر وہاں لغزشِ پا کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسرا وہاں ضرورت سے زیادہ رکنے کی برداشت بھی کسی میں نہیں ہوتی، جفاکش فوجیوں میں بھی نہیں۔

میرا خیال تھا کہ کھانے کے بعد میجر صاحب مجھے لائن آف کنٹرول کے بارے میں بریف کریں گے لیکن انہوں نے جنرل آغا ابراہیم اکرم کی کتاب “سورڈ آف اللہ” میرے ہاتھ میں تھما دی اور از راہ بندہ پروری میرے لئے ایک علیحٰدہ لالٹین کا آرڈر بھی دے دیا۔

“تم اس وقت یہ کتاب پڑھو اور مجھے بریف کرو۔ میں تمہیں کل صبح بریف کروں گا عین لائن آف کنٹرول پر کھڑے ہو کر۔”

جنرل آغا ابراہیم اکرم کی کتاب تاریخ کے عظیم اور جلیل القدر سپہ سالار خالدؓ بن ولید کی ذاتی اور عسکری سوانح عمری ہے۔ چونکہ وہ ایک فاتح جرنیل تھے اس لئے ایک دوسرے جرنیل نے ان کی عسکری زندگی کے ایک ایک گوشے کو خوردبین سے دیکھا اور قلمبند کیا۔ ان کی جنگی حکمتِ عملی، ان کی کمانڈ اور ان کی عام زندگی پر ایسے انداز سے لکھا جیسا ایک عظیم شخصیت پر لکھا جانا چاہئے۔

یہ خیال رہے کہ کتاب کا لب و لہجہ عقیدت مند کا نہیں، ایک ایماندار اور پروفیشنل فوجی کا ہے جس نے اسلام کی عسکری تاریخ کو کمال غیرجانبداری سے بیان کیا ہے۔

“رات ٹھو ٹھاہ کی کوئی آواز نہیں آئی۔” میں نے صبح پوری اور چائے کے ناشتے پر میجر متین سے پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کا تبادلہ کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ کسی رات کوئی فائٹنگ پٹرول یا ریکی پٹرول دشمن کے کسی سپاہی کی نظر میں آجائے تو وہ اندھا دھند فائرنگ شروع کر دیتا ہے۔ جواب میں ہمارے جوان بھی انہیں فائرنگ میں الجھا لیتے ہیں تاکہ ہماری پٹرول پارٹی برستی گولیوں کے چھاتے میں بحفاظت واپس آجائے۔

“آپ رات کو پٹرول پارٹی بھیجتے ہی کیوں ہیں؟ اس طرح تو جوانوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔”

“یہ بارڈر ہے پارٹنر اور سامنے دشمن ہے۔” انہوں نے میرے احمقانہ سوال کا جواب نہایت تحمل سے دیا۔ “پٹرول پارٹی تو بھیجنی پڑتی ہے تاکہ بے خبری میں نہ مارے جائیں۔ ہم لوگ یہاں ماں کے گھٹنے سے لگ کر نہیں بیٹھتے۔” انہوں نے ہی بتایا کہ پٹرول پارٹی کو بسا اوقات دشمن کی حدود میں بھی داخل ہونا پڑتا ہے۔ اندھیرے میں عام طور پر تو پتہ نہیں چلتا لیکن اگر دشمن کو بھنک بھی پڑ جائے تو فائر کھل جاتا ہے، اندھا دھند۔

میجر متین اور ان کی کمپنی کے جوانوں کے ساتھ گذرے چند روز میری زندگی کی حسین یادوں کا حصہ ہیں۔ یہاں عملی طور پر ہم لوگ محاذ جنگ پر مقیم تھے۔ جوان باریوں میں سوتے تھے۔ ان کے اردگرد سانپوں کی بہتات تھی لیکن ان کے دل میں خوف بالکل نہیں تھا، نہ سانپوں کا نہ دشمن کا۔ میرا معمول یہ تھا کہ دن عموما” پوسٹوں پر گذرتا تھا اور رات لالٹین کی روشنی میں مطالعے اور گرماگرم بحث میں گذرتی تھی۔ اللہ میجر متین کو شاد و آباد رکھے، ان کے ساتھ محبت کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ وہ کبھی ماڈل ٹاؤن لاہور سے حلوہ پوری کا ناشتہ پیک کروا کر لاتے ہیں اور ہم ناشتے پر پرانی یادیں تازہ کرتے رہتے ہیں۔

واپس یونٹ میں پہنچا تو سی او صاحب نے یاد فرما لیا۔ انہوں نے اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کہ سنا ہے تمہیں لکھنے لکھانے کی لت بھی ہے۔ میرا جواب سننے سے پہلے ہی انہوں نے فتویٰ جاری کر دیا کہ تم سویلین افسروں کے پاس کرنے کے لئے کوئی تعمیری کام تو ہوتا نہیں اس لئے تم پڑھنے لکھنے میں ہوشیار ہو جاتے ہو۔

“میرے پاس تمہارے لئے ایک اسائنمنٹ ہے۔” انہوں نے کہا۔ “کچھ دنوں بعد دشمن کے علاقے کی قلعہ بند پوسٹوں پر حملہ آور ہوکر انہیں اڑانے کا ڈیمو ہو رہا ہے۔ تم یہ سارا لٹریچر سنبھالو اور کچھ دنوں کے لئے الفا کمپنی کمانڈر کے پاس شفٹ ہو جاؤ۔ وہاں سکون سے کچھ دن بیٹھ کر قلعہ بندیوں کے بارے میں سارے لٹریچر کا مطالعہ کرو۔ تم نے اس موضوع پر میری تقریر لکھنی ہے۔ کچھ سمجھ نہ آئے تو میجر اختر سے پوچھ لینا۔”

“میجر اختر؟”

“ہاں ہاں وہی جن کے پاس تم جارہے ہو۔ بس تین چار دن میں کام ختم کر لینا۔ اور ہاں، تمہیں پتہ ہے نا کہ تمہاری آرمی اٹیچمنٹ کی اے سی آر (خفیہ رپورٹ) بھی لکھی جائے گی؟” پتہ نہیں یہ بات کہہ کر انہوں نے مجھے ڈنڈہ دکھایا تھا یا گاجر لیکن میں ان کی بات سمجھ گیا۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ فکر نہ کریں کام آپ کی منشاء کے مطابق ہوگا۔ بعد کی بات ابھی بتا دیتا ہوں کہ کرنل صاحب نے میری اے سی آر لکھی اور نہایت اچھی لکھی اور میری حوصلہ افزائی کے لئے مجھے دکھا کر آگے بھیجی۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔

میجر اختر بھی نہایت نفیس افسر تھے۔ سٹاف کورس کرچکے تھے اور موضوع کی ساری باریکیوں سے واقف تھے۔ انہوں نے بھی پرتکلف کھانا کھلایا اور کھانے کے دوران تفصیل سے میرا حدوداربعہ پوچھا اور تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولے۔

“تم طلعت خورشید کو تو جانتے ہوگے؟ میرا خیال ہے تمہاری فیملی کا ہے۔ کاکول میں میرے ساتھ تھا۔ توپخانے کا افسر ہے۔”

“جی میں ہی تو اسے جانتا ہوں۔” میں نے جواب دیا۔ “میجر طلعت توپخانے سے ہوابازی میں چلا گیا تھا۔ آج کل چترال میں پایا جاتا ہے لیکن وہاں اس کی پرواز کسی اور ہی فضا میں ہے۔”

(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” کا ایک باب)

(جاری ہے)


One thought on “آرمی اٹیچمنٹ: تین ماہ کا تعلق اور عمر بھر کا رومانس-3

Comments are closed.