ہدیۂ نعت

حسین ثاقب

حیات ساری یقین و گماں کی الجھن ہے
نہ ہو یقین تو کس کام کا یہ جیون ہے
مگر یقین کی منزل ہے دھند میں رُوپوش
گمان و وہم کی دنیا جہاں میں روشن ہے
فریب خوردہ ہے یہ دہر کہ نہیں معلوم.
سراب زارِ گماں ہے کہ دشتِ ایمن ہے

فریب ہے غمِ ہستی کی بیقراری بھی
دل و نگاہ کی فریاد و آہ و زاری بھی
بجا کہ خلد ہے مومن کی آرزو لیکن
یہ خلدِ شوق بھی مومن کی آرزو بھی فریب
یہ رنگ و بُو بھی بہاروں کے قافلے بھی فریب
یہ کہکشاں بھی، ستاروں کے قافلے بھی فریب
نگاہِ ناز بھی، قربت بھی فاصلے بھی فریب
بس ایک عشقِ محمد ہے دولتِ ایماں
تمام دہر ہے باقی گمان و وہم و سراب

میں بے ادب سہی، لیکن حسین ثاقب ہوں
کہوں تو کس طرح احوالِ شوق و حالِ خراب
سلیقہ کوئی تو بتلا دے لب کشائی کا
سکھا دے کوئی تو اظہارِ شوق کے آداب
بیاں تو کر دوں میں دل کی حکایتیں لیکن
“ہزار بار بشوئم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست”