آرمی اٹیچمنٹ: تین ماہ کا تعلق اور عمر بھر کا رومانس-4

bhimber2

خاکی وردی، بھاری بوٹ اور قلب کی گہرائی سے “حق حق علی علی” کا نعرہ. اس نعرے کی بِیٹ نے فی الواقع رگوں میں بجلیاں بھر دی تھیں اور جوان اس پر دنیا و مافیہا سے بے خبر اس حال میں ڈبل مارچ کر رہے تھے کہ ان کے قدموں کی دھمک سے زمین دہل رہی تھی لیکن کسی کو فاصلے یا تکان کا رتی بھر بھی احساس نہیں تھا

(چوتھی قسط)

حسین ثاقب

اور جلد ہی کوچ نقارہ بج گیا.

میں جس فوجی یونٹ کے ساتھ وابستہ تھا اس کے قیام کا وقت پورا ہوا تو اسے اگلی منزل کی طرف کوچ کرنے کا حکم ملا. حقیقت میں اسے منزل کی بجائے اگلا پڑاؤ کہنا چاہئے. فوج میں انفنٹری کی یونٹیں صحیح معنوں میں خانہ بدوش ہوتی ہیں. چلنا چلنا مدام چلنا ہی ان کا عملی ماٹو ہے. میرے والی یونٹ کا اگلا پڑاؤ لاہور چھاؤنی قرار پایا. خیال رہے کہ ابھی میری وابستگی کا عرصہ آدھا بھی نہیں ہوا تھا. ایک لمحے کے لئے دل کی دھڑکن بے قابو تو ہوئی لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلّی دے لی کہ چلو اب لاہور میں اپنے گھر یا پھر میس کے پختہ کمرے میں رہنے کا موقع ملے گا جہاں روشنی کے لئے برقی قمقمے میسر ہوں گے اور چلنے پھرنے آنے جانے کے لئے ہموار زمین بھی ہوگی. اگرچہ اس مختصر وقت میں مجھے کشمیر کے پہاڑوں سے پیار ہوگیا تھا. اگلے مورچوں پر تعینات جوانوں کے ساتھ بھی انسیت کا رشتہ قائم ہو گیا تھا. مجھے لگتا تھا جیسے وہ میرے آنے کا انتظار کرتے ہوں. یوں تو وہ بھی ساتھ ہی لاہور جا رہے تھے لیکن اپنائیت کا جو پودا مشکل حالات میں پروان چڑھتا ہے مجھے ڈر تھا شائد یہ لاہور جیسے بڑے شہروں کی آب و ہوا میں نشو و نما نہ پا سکے. میرا حال بھی اس میگسار جیسا تھا جسے جنّت جانے کا حکم ملا تو وہ ساقی کے قدموں میں گر گیا.

ساقی درِ مے خانہ ابھی بند نہ کرنا
شائد مجھے جنّت کی ہوا راس نہ آئے

سچ پوچھیں تو دل میں مختلف النوع جذبات تھے. ایک تو وہ حسرت تھی گھر میں یا میس میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے کی. ان دنوں امجد اسلام امجد کا ڈرامہ “سمندر” کافی ہٹ جا رہا تھا. یہ حسرت لائن آف کنٹرول پر بیٹھ کر پوری نہیں ہو سکتی تھی جہاں بجلی کا وجود تو دور کی بات ہے، تصوّر بھی نہیں تھا. کبھی کبھی خود کو یقین دلانے کے لئے کہ روشنی صرف سورج یا لالٹین سے ہی پیدا نہیں ہوتی، ہم رات کو اپنے بنکر سے نکل کر اپنے پہاڑ کی منڈیر پر کھڑے ہو جاتے اور غور سے مقبوضہ کشمیر کی طرف دیکھتے. بغیر دوربین کے. وادی میں کئی میل دور کسی آبادی کی جھلملاتی روشنیاں نظر آتیں. ہم پہلے نیلے آسمان پر جھلمل کرتے تاروں کو دیکھتے. جس رات آسمان صاف ہوتا اس رات فضا بھی صاف ہوتی. ایسے میں ہمارے اور اس آبادی کی روشنیوں کے درمیان فاصلہ خود بخود کم ہو جاتا. ہم ٹھنڈی آہ بھر کر دل کی جملہ حسرتوں کا شمار کرتے اور عروس البلاد لاہور کی روشنیوں کے تصّور میں کھو جاتے. ان دنوں لاہور جیسے شہر جمہوریت کی نعمت سے محروم اور روشنیوں میں لت پت ہوتے تھے. ہم یہی سمجھتے رہے کہ دور سے نظر آنے والی روشن آبادی شائد نظر کا دھوکہ یا سراب ہے لیکن حقیقت جان کر طبیعت کی الجھن بڑھ گئی. وہ آبادی سراب نہیں حقیقت تھی اور اس کا نام نوشہرہ تھا.

لیکن نوشہرہ کی روشنیوں کا ہمیں کیا فائدہ؟ ہمیں یا لاہور سے غرض تھی یا کشمیر کی اس پہاڑی چوٹی سے مطلب تھا جہاں میں اس لمحے موجود تھا. یہ درست ہے کہ لاہور میں شہروں والی ساری خصوصیات موجود تھیں لیکن اس تاریک وادی کے اچھوتے اور معصوم حسن کے سامنے ہر شہر کی آسانیاں ہیچ تھیں. میں نے سوچا کہ مزید چھ ہفتے کی ہی تو بات ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ یونٹ کا کوچ ملتوی ہو جائے لیکن حقیقت میں ایسا ممکن نہیں تھا. ایک دن جب کوچ کی بات ہو رہی تھی تو میں نے ایجوٹنٹ صاحب سے پوچھا کہ کیا لاہور جاکر میں اپنے گھر میں قیام کر سکوں گا یا مجھے یونٹ کے دیگر افسروں کے ساتھ میس میں رہنا پڑے گا.

“تمہیں کس نے کہا ہے کہ تم ہمارے ساتھ لاہور جارہے ہو؟” ایجوٹنٹ نے کہا. “ہم تمہیں دیگر الاتِ حرب اور انونٹری کے ساتھ آنے والی یونٹ کو ہینڈ اوور کرکے جائیں گے… مطلب یہ کہ جو یونٹ اس چوٹی پر براجمان ہوگی تمہیں اس کے حوالے کیا جائے گا.”

معلوم ہوا کہ آنے والی یونٹ کے افسران اور سردار صاحبان کی ایڈوانس پارٹی آ چکی ہے اور یونٹ کے رئرہیڈکوراٹر بھمبر میں مال اسباب “ٹیک اوور” کر رہی ہے. اسی طرح ہماری یونٹ کی ایڈوانس پارٹی لاہور میں براجمان تھی. یہ ہینڈنگ اوور ٹیکنگ اوور کا کام کافی اعصاب شکن تھا. اس کا اندازہ مجھے دو روز بعد ہوا جب اپنا سامان اٹھا کر بھمبر جانے کا حکم ملا.

لائن آف کنٹرول پر ہماری یونٹ کی خیمہ گاہ اکھڑنا شروع ہو گئی تھی اور اس کی جگہ کسی دوسری یونٹ کے دستے تعینات ہونا تھے. یہ دستے اپنا سامان اٹھا کر رات کی تاریکی میں بھمبر سے پاپیادہ نکل کر دشمن کی نظر میں آئے بغیر راستے میں ایک پڑاؤ کرتے. پھر اگلی رات کی تاریکی میں خاموشی سے لائن آف کنٹرول پر اس طرح پہنچ جاتے کہ سامنے بیٹھے دشمن کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو پاتی. وہ اس مقصد کے لئے عام راستوں سے ہٹ کر چلتے تھے. ہماری یونٹ کے دستے بھی اسی خاموشی سے بھمبر کی طرف کوچ کر رہے تھے. عام طور پر سرحدی علاقوں میں دشمن کے جاسوسوں کی موجودگی خارج از امکان نہیں اور ان کی ہر چیز پر نظر ہوتی ہے اس لئے ہر ممکن احتیاط لازمی سمجھی جاتی ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بھمبر سے آنے والے دستوں کا تعلق اسی یونٹ سے تھا جس کے ساتھ اس خاکسار کو آنے والے دنوں میں وابستہ ہونا تھا. لاہور سے آنے والوں کو ابھی کچھ عرصہ بھمبر میں ہی مقیم ہونا تھا.

سامان کی حوالگی کا مرحلہ بڑا صبرآزما اور اعصاب شکن تھا. ایک ایک چیز پر چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، تکرار ہوتی اور جھگڑا کھڑا ہو جاتا. لاہور کی ایڈوانس پارٹی میں افسروں کے ساتھ جو سردار صاحبان تھے وہ بڑے کایاں تھے. وہ ہر چیز حتیٰ کہ پانی کے پکھالوں کو بھی باریک نظر سے دیکھتے اور معمولی سے ڈینٹ پر بھی قبول کرنے سے انکار کر دیتے.

سردار صاحبان اپنے تجربے کی وجہ سے فوج کے کمانڈ سٹرکچر میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے. یہ وہ لوگ ہیں جو بطور سپاہی بھرتی ہوتے اور اپنی قابلیت اور محنت کے بل پر ترقی کرتے کرتے جونیئر کمشنڈ افسر کے رینک پر پہنچتے ہیں. انگریزوں کے زمانے میں سردار صاحبان کو وائسرائے کمشنڈ افسر کہا جاتا تھا. کہنے کو تو یہ نوجوان لفٹین کے بھی زیرِ کمان ہوتے ہیں لیکن انگریز کے زمانے سے ہی انہیں لفٹین سے جرنیل تک سارے افسر “صاحب” کہہ کر مخاطب کرتے تھے. انتہائی طیش کے عالم میں بھی سردار صاحبان کے ساتھ طرزِ تخاطب احترام پر ہی مبنی ہوتا تھا.

بات ایڈوانس پارٹی کی ہو رہی تھی. بھمبر کے باہر سماہنی جانے والی سڑک پر ایک دریا ہے جس کے نیم ٹاپو پر ہماری یونٹ کا عقبی مستقر تھا جہاں جانے کے لئے دریا پر رسیوں کا پل باندھا گیا تھا. شروع شروع میں دریا عبور کرتے ہوئے پل ہلارے لینے لگتا تو دل بھی سینے میں ایسے ہی ہلارے لیتا. یہاں ہر روز سٹور کی اشیاء قرینے سے سجتیں اور لاہوری ایڈوانس پارٹی کے افسر اور سردار صاحبان ایک ایک چیز کو باریک نظر سے کم اور تنقیدی نظر سے زیادہ دیکھتے اور پھر دیکھتے دیکھتے بحث مباحثہ شروع ہو جاتا. وہ کبھی کسی چیز میں نقص نکال کر اسے قبول کرنے سے انکار کرتے اور کبھی کسی اور چیز پر نگاہِ غلط انداز ڈالتے. ویسی ہی نگہ جو بقول غالب بظاہر نگاہ سے کم ہے. ایسے لگتا جیسے کوئی بھی چیز ان کی نظر میں نہیں سما رہی. آنے والے اپنی بٹالین کے لئے بہترین سامان لینا چاہتے تھے. مجھے پتہ چلا کہ ہماری لاہور جانے والی پارٹی وہاں بھی یہی کچھ کر رہی ہے.

سارے دن کی تکرار کے بعد معاملہ ثالثی کے لئے بی او جے سی او کے سامنے پیش کیا جاتا. موصوف بریگیڈ کے آرڈیننس انچارج ہوتے ہیں. رینک کے لحاظ سے جونیئر کمشنڈ افسر لیکن زیرِ بحث معاملات میں ان کی رائے حرفِ آخر سمجھی جاتی. وہ جس چیز کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلاتے وہ قبول کر لی جاتی اور فریقین کے چہرے بشاشت سے دمک اٹھتے.

یہ سلسلہ کافی دن چلتا رہا اور بالآخر ہماری بٹالین نے کھاریاں چھاؤنی ریلوے سائیڈنگ کے ساتھ کھلی جگہ پر پڑاؤ ڈالنا شروع کردیا. رولنگ سٹاک (انجن اور ڈبوں) کو وہیں آنا تھا اور وہیں سے ہماری پلٹن کے دستوں کو اس ملٹری سپیشل کے ذریعے لاہور چھاؤنی روانہ ہونا تھا. مجھے حکم ملا کہ میں یونٹ کے ساتھ لاہور تک جاؤنگا جہاں مجھے اور کیپٹن ڈاکٹر صادق میمن کو باقاعدہ “ڈائن آؤٹ” کیا جائے گا. یہ ہماری الوداعی دعوت تھی. ڈاکٹر صاحب اس زمانے کے جبری بھرتی کے قانون کے تحت فوج میں آئے تھے. شروع شروع میں پنجرے کے پنچھی کی طرح پھڑپھڑاتے رہے لیکن پھر کچھ عرصے بعد فوج سے دل لگا بیٹھے اور مستقل ہونے کے لئے درخواست گذار دی جو منظور نہ ہو سکی کیونکہ آپشن اختیار کرنے کی تاریخ گذر چکی تھی. انہیں جبری بھرتی سے آزاد ہوکر واپس ٹنڈو محمد خان جانا تھا اور مجھے پھر وہیں لائن آف کنٹرول پر.

دو تین روز میں سارے دستے فوجی ٹرکوں میں کھاریاں چھاؤنی پہنچ گئے جہاں انہوں نے کھلے میدان میں خیمے گاڑنے شروع کر دئے. اس دوران بھمبر میں الوداعی دعوتیں بھی ہوئیں اور بالآخر آخری دستہ بھی روانگی کے لئے تیار ہوگیا. اسے پیدل روانہ ہونا اور پینتیس کلومیٹر کا سفر تقریباً چھ گھنٹوں میں طے کرنا تھا. ہمارا دوست بیش (کیپٹن بشیر بھٹی) اس دستے کا کمانڈر تھا اور میں بھی اس کا ہمرکاب ہو گیا تھا. اس مارچنگ کالم کے عقب میں ڈاکٹر صاحب کو اپنی ایمبولینس کے ساتھ موجود ہونا تھا.

مجھے فوجی گاڑیوں کے کانوائے میں جانا ہے یا پیدل دستے کے ہمراہ، اس کا فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا گیا. سی او صاحب نے کہا، بائیس میل کا فاصلہ ہے، چل لوگے؟ میں نے دل میں کہا آپ کہاں کے سپرمین ہیں. یہ تو خاکی وردی کا کرشمہ ہے، میں پہنوں گا تو میں بھی چل لوں گا. دوسری بات یہ ہے کہ مارچنگ کالم زیادہ تر براوو کمپنی کے جوانوں پر مشتمل تھا جن کی پوسٹ پر میں نے زیادہ وقت گذارا تھا. بیش کمپنی کمانڈر اور میرا گرائیں تھا. اس کے علاوہ اس کمپنی کے جوانوں کی خواہش تھی میں ان کے ساتھ چلوں. میں نے ہامی بھر لی. سی او صاحب بہت خوش ہوئے لیکن لگتا تھا جیسے انہیں میرے صحیح سلامت کھاریاں پہنچنے کا یقین نہیں. تھوڑی دیر بعد انہوں نے ہیڈکلرک صاحب کے ہاتھ ایک فائل بھیجی اس پیغام کے ساتھ کہ اسے دیکھ کر فوراً واپس کردوں. میں نے فائل کھول کر دیکھی. یہ میری خفیہ رپورٹ کا ڈرافٹ تھا جو انہوں نے لاہور جانے سے پہلے دستخط کرکے آگے بھیجنا تھی. ازراہِ مہربانی انہوں نے بہت اچھی رپورٹ دی حالانکہ اس کی امید قطعی نہیں تھی.

اگلی صبح ہم نے یونیفارم زیبِ تن کی، پاؤں میں ڈی ایم ایس والے بھاری فوجی بوٹ پہنے اور مارچ کی ترتیب میں روانہ ہوگئے. میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں اس زمانے میں بہار کا موسم اپریل میں آتا تھا. راتیں خنک اور صبحیں خوشگوار ہوتی تھیں اور ہوا؟ بہار کی صبح کی ہوا کا تو ذکر ہی نہ پوچھیں. بادہ نوشی ہے باد پیمائی والی کیفیت بھی اور جامِ صبوحی والے اثرات بھی. یہ کیفیت تفصیل سے بیان کروں تو شاید حدود آرڈیننس کے تحت پرچہ کٹ جائے. اس کیفیت میں یہ احساس بھی شامل تھا کہ آج اپنے آپ پر ثابت کرنے کا دن ہے کہ جفاکشی پر کسی کا اجارہ نہیں.

بھمبر کی حدود سے نکل کر ہمیں گجرات روڈ کی بجائے ایک نسبتاً ویران راستے کا انتخاب کرنا تھا تاکہ ہماری وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو. اس راستے پر چل کر کھاریاں چھاؤنی کے قریب سہنہ گاؤں سے پکی سڑک پر چڑھنا تھا. ہم راستہ بدلنے سے پہلے صفیں درست کرنے کے لئے پل بھر کو رکے تو ساتھ ہی شامت بھی آن پہنچی. کہیں سے ایک فوجی جیپ نمودار ہوئی اور ہمارے قریب آکر رک گئی. دروازہ کھلا اور ہمارے ممدوح کرنل صاحب برآمد ہوئے. پہلے تو انہوں نے مارچ کی پیشرفت پر کیپٹن بیش سے رپورٹ لی اور پھر فائر کھول دیا. تابڑ توڑ. وہ میری طرف دانت پیستے خشمگیں نظروں سے دیکھتے اور بیش پر دھاڑنا شروع کر دیتے. ان کے حساب سے ہماری رفتار سست تھی اور غالباً ان کا خیال تھا کہ بیش میری وجہ سے تیز نہیں چل رہا حالانکہ ابھی تو آغازِ سفر تھا، ابھی تو رفتار پر فیصلہ دینا اور سست روی کا تعین کرنا قبل از وقت بھی تھا اور بعید از فہم بھی. انہوں نے حکم جاری کیا کہ ہمیں فلاں وقت پر ہر حال میں منزل پر پہنچنا ہوگا. انہوں نے غصّے میں گرجتے ہوئے رسمی سوال پوچھا، “کوئی شک کوئی سوال؟” اور جواب سنے بغیر سٹک لہراتے جیپ میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے.

کرنل صاحب کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ انہوں نے غصّے میں ہماری مسافت کا طے شدہ دورانیہ بھی کم کر دیا تھا. اب ہمیں ہر حال میں ان کے دئے ہوئے وقت سے پہلے پہنچنا تھا چاہے اس کے لئے اڑنا ہی کیوں نہ پڑے. بیش نے جوانوں سے کہا بولو کیا کہتے ہو. سب نے بیک زبان جواب دیا. “بسم اللہ. چلیں ہم آپ کو سی او کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیں گے.” بیش نے مجھے دیکھا اور کہنے لگا کہ آپ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھ جائیں کیونکہ ہم تو اب ڈبل مارچ سے جائینگے. میں نے انکار کردیا. میں نے کہا میں بھی ڈبل مارچ سے جانا چاہتا ہوں. اگر قدم سے قدم نہ ملا سکا تو راستے میں چھوڑ جانا. میری اس بات سے بیش ابھی حیران ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب بھی ایمبولینس سے اتر آئے اور ساتھ پیدل چلنے کا فیصلہ سنایا. اس بات پر تو بشیر باقاعدہ سکتے میں آگیا. یہ منظر دیکھ کر جوانوں نے جوشیلے نعرے لگائے اور ہم باقاعدہ عازمِ سفر ہوئے.

اب چلنے کی ترتیب یہ تھی کہ ہم اندازے سے ایک میل “لیفٹ رائٹ لیفٹ” کے آہنگ پر بھاگتے پھر ایک میل نارمل رفتار سے مارچ کرتے پھر بھاگتے اور پھر نارمل رفتار پرچلتے. بیچ میں سستانے کا وقفہ بھی ہوتا. یہ چونکہ عام راستہ نہیں تھا اس لئے اس پر کوئی سنگِ میل بھی نہیں تھا کہ طے کردہ یا طے نا کردہ فاصلے کا علم ہوسکتا. کسی راہگیر سے پوچھنے کا رسک بھی نہیں لے سکتے تھے کیونکہ دیہات میں یہ کہنے کا رواج نہیں کہ مجھے معلوم نہیں کسی اور سے پوچھو. راہگیر نے ہر صورت ہماری مدد کرنے کی کوشش کرنی تھی چاہے اس کے نتیجے میں ہم راستے سے بھٹک جاتے. اتنی دیر میں ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں پتہ نہیں کیا بات آئی کہ انہوں نے کہا، کاش اس وقت بینڈ ساتھ ہوتا تو جوانوں کا لہو گرمانے کا سامان ہو سکتا تھا. ان کی پیشہ ورانہ رائے یہ تھی کہ بینڈ کی بِیٹ پر مارچ کرنے سے تکان اور فاصلے کا احساس مدھم ہو جاتا ہے.

“اگر ردھم ہی پیدا کرنی ہے تو یہ کام بینڈ کے بغیر بھی ہو سکتا ہے.” میں نے رائے دی. “کوئی ایسا ترانہ جس سے خون میں چنگاریاں پیدا ہوں اور برق کے کوندے لپکیں سب مل کر گائیں اور اس کی بِیٹ پر ڈبل مارچ کریں.”

“میں بتاتا ہوں.” ایک نوجوان این سی او نے ہاتھ کھڑا کر دیا.

اور اس نے جو نعرہ بتایا اس نے بڑے بڑے بینڈز کی مارچنگ ٹیونز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا. کمپنی نے چلتے چلتے یک زبان ہو کر آواز لگائی”حق حق علی علی دم دم علی علی” اور سارے دستے کی رفتار اور مارچ کا ردھم اس کے مطابق خود بخود ایڈجسٹ ہونا شروع ہوگئے. ذرا تصّور کریں، خاکی وردی، بھاری بوٹ اور قلب کی گہرائی سے “حق حق علی علی” کا نعرہ. اس نعرے کی بِیٹ نے فی الواقع رگوں میں بجلیاں بھر دی تھیں اور جوان اس پر دنیا و مافیہا سے بے خبر اس حال میں ڈبل مارچ کر رہے تھے کہ ان کے قدموں کی دھمک سے زمین دہل رہی تھی لیکن کسی کو فاصلے یا تکان کا رتی بھر بھی احساس نہیں تھا.

جب ہم سہنہ گاؤں کے پاس سڑک پر آئے تو گھڑی دیکھ کر بیش کی ہنسی نکل گئی. اس رفتار سے تو ہم سی او کے مقررہ وقت سے بھی پندرہ منٹ پہلے پہنچ رہے تھے. کسی نے ذرا دیر سستانے کا مشورہ دیا لیکن جسم و روح کی اس کیفیت میں ذرا سی دیر بھی رک جاتے تو پھر منیر نیازی کی طرح شاید کئی گھنٹوں تک قدم اٹھانے کے قابل نہ رہتے.

تھکن سفر کی بدن شل سا کر گئی ہے منیرؔ

بُرا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا

ہاں یہ ہوا کہ ڈبل مارچ اب ڈاؤن گریڈ ہو کر کوئک مارچ ہوگیا تھا کیونکہ اب ہم شاہراہِ عام کے کچے شولڈر پر چل رہے تھے. حالانکہ اس زمانے میں گاڑیوں کی تعداد آج کے مقابلے میں بہت کم تھی.

جب ہم خیمہ گاہ میں داخل ہوئے تو سی او صاحب کی حیرت دیدنی تھی. انہوں نے حسبِ عادت شاباش دینے کی بجائے حکم دیا کہ سویلین افسر کو پیش کیا جائے. جب میں ان کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے نہایت خوشدلی سے میرا سلیوٹ قبول کیا. وہ زبان سے تو کچھ نہ بولے لیکن ان کی آنکھوں میں تحسین آمیز تاثر کی نرمی دیکھ کر میں خود بھی حیران ہوا.

“پہلا دن یاد ہے جب تم پہاڑ چڑھ کر میرے دفتر میں داخل ہوئے تھے؟”

“جی سر.” میں نے کہا. “میں گھوڑے کی طرح ہانپ رہا تھا.”

“اب دیکھو ان چھ ہفتوں میں ہم نے تمہیں کیا سے کیا بنا دیا ہے.”

گویا پینتیس کلومیٹر کا یہ کامیاب مارچ ان کے کمالِ فن کا ثبوت تھا اس میں میرا ذاتی کمال کوئی نہیں تھا. ویسے اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو یہ دعویٰ جزوی طور پر درست بھی تھا. اگر میں فوجی یونٹ کے ساتھ، اور وہ بھی فارورڈ ایریا میں، وابستہ نہ ہوتا تو شاید اس عرفانِ ذات سے محروم رہتا کہ میں یہ کام بھی کر سکتا ہوں. سی او صاحب کے حکم پر ڈاکٹر صاحب نے بوٹ اتروا کر میرے پاؤں کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ مجنوں کی طرح میں بھی آبلہ پائی کی رسم ادا کر چکا ہوں. بڑے بڑے چھالے دیکھ کر انہوں نے سی ایم ایچ بھجوانے کا حکم دیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا وہ خود ہی اس کا علاج کر دیں گے. ڈاکٹر صاحب نے ببول کے کانٹوں کا کام نشتر سے لیا اور پاؤں صاف کرکے پٹی کردی. مجھے اپنے دستے کے کمانڈر اور دوسرے جوانوں کے بارے میں علم نہیں ہوسکا لیکن اندازہ ضرور تھا کہ چاہنے والوں کے ہونٹوں کی مسکراہٹ تو سب کو نظر آتی ہے لیکن ان کے پاؤں کے آبلے آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں.

پوچھنے پر پتہ چلا کہ جو پاؤں سدا گردش میں رہتے ہیں ان پر آبلے نہیں بنتے.

(جاری ہے)

(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” کا ایک باب)


4 thoughts on “آرمی اٹیچمنٹ: تین ماہ کا تعلق اور عمر بھر کا رومانس-4

  1. مصنف کی زبان و بیان پر قدرت میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ مگر چھتیس سال پہلے کے واقعات کی ایسی تفصیلات کا یاد رہ جانا قلبی تعلق کے بغیر ناممکن ہے۔

    Liked by 1 person

  2. Well narrated…. Since I was with the writer so can enjoy the beauty of the terrain and emotions of men in uniform.Here men and nature blend together to romantise their feelings. Saif ul malook was conceived at a place called “Kala Dev” near our defences. A right place where the poet impregnated himself in the nature to produce a remarkable literature.

    Like

Comments are closed.