حُسین ثاقب
بھٹو حکومت کے دمِ واپسیں کے دور میں الیکشن دھاندلی کے خلاف نو ستاروں کی تحریک شروع ہوئی تو اس کے اولین اسیران میں حافظ شفیق بھی شامل تھا. اپوزیشن کے سینئر رہنما بشمول جاوید ہاشمی گلبرگ کے ایک ہوٹل میں تحریک کے سلسلے میں اجلاس کر رہے تھے کہ دھر لئے گئے.تب ہمارا ممدوح جناب حمید کوثر کی شفقت کی چھتر چھایا سے بہت دور سیاست کے خارزار میں داخل ہو رہا تھا. اس نے ایک آدھ بار پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن پتھر کا ہو گیا.
گورنمنٹ کالج جانے سے پہلے میں نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں بھی گذارا. کالج کی عمارت تاج کمپنی مرحومہ اور عرب ہوٹل کے عین سامنے واقع ہے. عرب ہوٹل اختر شیرانی کا مستقل ٹھکانہ تھا اور قیامِ پاکستان سے پہلے لاہور کی ثقافت میں اس کا وہی مقام تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد پاک ٹی ہاؤس کو حاصل ہوا. اس کالج میں اپنے زمانے کی نابغہ روزگار شخصیات سے بھی ملاقات رہتی تھی.
یہیں سالِ اول کے زمانے میں میں نے آغا شورش کاشمیری پر ایک دھانسو قسم کی نظم لکھی جس کے ہر دوسرے مصرعے میں “دیوار ہے شورش، للکار ہے شورش، مینار ہے شورش، یلغار ہے شورش” کے قافیہ ردیف کے ذریعے ان کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا. ہمارے اردو کے ایک پروفیسر سردار محمد جمیل صاحب نے مجھ سے وہ نظم کئی بار سنی اور جھوم جھوم کر سنی اور ایک دن مجھے پکڑ کر میکلوڈ روڈ پر واقع ہفت روزہ چٹان کے دفتر لے گئے. آغا صاحب سے ملاقات بھی ہوئی، ان کی فرمائش پر نظم بھی سنائی اور اپنے ممدوح کو دفتر کا کام نپٹاتے بھی دیکھا.
اس ملاقات کے بعد میرے دل میں بسا آغا صاحب کا دیو ہیکل بت ایسا پاش پاش ہوا کہ میں نے ہمیشہ کے لئے شخصیت پرستی سے توبہ کرلی اور خود کو سمجھا لیا کہ مشاہیر بھی ہماری طرح کے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں. بایں ہمہ ان کی تحریروں اور تقریروں اور بالخصوص سیاسی شاعری نے جو سحر قلب و جاں پر طاری کیا وہ اب بھی باقی ہے. اگر ان سے بہتر نہیں تو ان جیسا لکھنے اور بولنے والا میں نے کوئی دیکھا ہے تو وہ ہمارا دوست حافظ شفیق الرحمان ہے جسے کسی وقت اس زمانے کے ایک طاقتور وزیر کے غیض و غضب سے بچانا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا. لیکن حافظ صاحب کا ذکر ذرا بعد میں آئے گا.
کالج میگزین “کریسنٹ” کے انچارج پروفیسر خالد بزمی تھے. انہوں نے مجھے میگزین کا ایڈیٹر مقرر کیا اور سیرت نمبر کے لئے کام بھی کرایا. میگزین کا سارا مسودہ حمایت اسلام پریس کے حوالے کرکے میں گورنمنٹ کالج چلا آیا. کالج بھی انجمن حمایتِ اسلام کا تھا اور پریس بھی جو میگزین کو بلا معاوضہ چھاپتا تھا لیکن طباعت سے پہلے ہی حکومت نے کالج کو بھٹو صاحب کے حکم پر قومی تحویل میں لے لیا جس کی وجہ سے ہمارا مرتب کردہ میگزین شائع نہ ہوسکا. اگر یہ بعد میں شائع ہوا ہو تو ظاہر ہے کسی اور مجلس ادارت کے زیرِ اہتمام ہوگا.
کالج میں ایک بزمِ ادب بھی تھی جس کا مدارالمہام یہ خاکسار تھا. میں پہلی دفعہ بزم ادب کی تقاریب میں اس زمانے کے بسیارگو شاعر عبدالعزیز خالد کو لے کر آیا جو لاہور کے کمشنر انکم ٹیکس تھے. اتفاق سے وہ بھی اسی کالج کے فارغ التحصیل تھے اور خود کو ساختہ اسلامیہ کالج کہتے تھے. اس کے علاوہ قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کو بھی بعد از خرابی بسیار لے کر آیا. وہ خاقانئ ہند اور فردوسی الاسلام کہلانا پسند کرتےتھے اور اگر نہ کہا جائے تو ناراض ہوتے تھے. ان کو لانے لے جانے کا واقعہ کافی دلچسپ ہے جس کی گمبھیرتا اور طوالت کی یہ تحریر متحمل نہیں ہو سکتی. بزمِ ادب کے انچارج حمید کوثر صاحب تھے. حفیظ جالندھری صاحب کے منہ بولے سعادتمند بیٹے اور شاگردِ رشید لیکن مزاج میں ان کے بالکل برعکس.
آج بھی مجھے کسی عظیم آدمی کا تصور کرنا ہو تو بے ساختہ حمید کوثر صاحب کا چہرہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے. ان کی تربیت کا میری شخصیت پر کافی گہرا اثر ہے. میں نے ان کے قدموں میں بیٹھ کر فاعلاتن فاعلات کرنا سیکھا. ان کی شخصیت کا ایسا سحر تھا کہ میں نے شعر گوئی کے ساتھ ساتھ اصول پسندی کو بھی باقاعدہ اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا.
یہ وہ زمانہ تھا جب مفکرین، شعراء اور دانشوروں پر سوشلزم کا ایک رومانس طاری تھا. وہ علمی بحث مباحثے اور حلقہ ارباب ذوق کی مجالس کا دور تھا. کوئی گفتگو کارل مارکس اور ہیگل کے حوالوں کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی. ہر حیثیت کے اربابِ فکر و نظر سرخ انقلاب کے خواب دیکھتے اور طبقاتی استحصال سے پاک یوٹوپیا میں بسنے کی آرزو پالتے تھے. خود میری ایک نظم کا مصرعہ کافی ہٹ ہوا تھا: پیٹ خالی ہو تو ہر چیز بری لگتی ہے. میرا ایک دوست خالد سلیمی تو جنون کی حد تک انقلابی تھا. بعد میں مایوس ہوکر وہ سکینڈے نیویا کے کسی ملک میں آباد ہوگیا. وہ ایک ایماندار کمیونسٹ اور خوبصورت شاعر بھی تھا. ان سب لوگوں کو امید تھی کہ بھٹو کی حکومت پرولتاریوں کی جنّت کا خواب پورا کرے گی لیکن بھٹو کے سوشلزم نے نہ صرف رومانس توڑ دیا اور خواب بھی بکھیر دئے، اس نے باقاعدہ ظلم و تشدّد کا بازار گرم کر دیا تھا.
اس زمانے میں جناب قتیل شفائی سے بھی تھوڑی بہت نیازمندی تھی. وہ پاکستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری تھے جو اپنے زمانے میں ادیبوں اور اہل قلم کی “انجمن مصنفین” تھی. یہ تنظیم 29 جنوری 1959ء کو کراچی میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے زیر صدارت قائم ہوئی۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس انجمن کے قیام کا مقصد پاکستان کے ادیبوں کے حقوق کا تحفظ قرار دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے انجمن کو پزیرائی ملی اور پاکستان کے تقریباً تمام قابل ذکر ادیب اور شاعر اس انجمن کے رکن رہے۔
رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام متعدد ادبی انعامات کا آغاز بھی ہوا جو پاکستان کے بڑے اور اہم ترین ادبی انعام قرار پائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلڈ کے قیام کا مقصد سوشلزم اور کمیونزم سے ہمدردی رکھنے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کے مقابلے میں ہم خیال مصنفین کا لشکر کھڑا کرنا تھا. پاکستان اس زمانے میں کمیونسٹ بلاک کے خلاف امریکہ کا اتحادی تھا. کمیونزم منکرین مذہب کا نظام تھا اور اس کے پھیلاؤ کو روکنا ہمارا مقدس فریضہ قرار دیا گیا تھا. یہ اور بات ہے کہ منکرینِ خدا کے خلاف یہ جہاد ہم “فی سبیل الّلہ” نہیں کر رہے تھے. گلڈ کے قیام کا خیال قدرت اللہ شہاب کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھا تاکہ اس سے وابستہ ادباء، شعراء اور ہمہ نوع دانشور صدر ایوب خان کے قصیدے لکھیں، ترقی پسندی کی مذمت کریں اور شہاب صاحب کی نوکری قائم رہے. ان کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں. کہا جاتا تھا کہ ملک میں آنے والی ہر اچھی یا بری تبدیلی کے پیچھے شہاب صاحب کا ہاتھ ہوتا ہے.
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے
میں جس وقت کی بات کر رہا ہوں وہ بھٹو حکومت کا ابتدائی دور تھا. اسمبلی ہال کے عقب میں منٹگمری روڈ اور کوپر روڈ کے نکڑ پر گلڈ کا دفتر تھا. اس وقت یہ خستہ سی عمارت تھی بعد میں وہاں کثیرالمنزلہ پلازے تعمیر ہوئے اور ڈیوٹی فری دکانوں اور کرنسی تبادلے کی منڈی سج گئی. دفتر کے سامنے اسلامیہ کالج فار گرلز کے باہر چاٹ والے کا ٹھیلا تھا جہاں لڑکیوں کا ہجوم ہوتا تھا لیکن وہ بزدگ چاٹ والا کسی لڑکے کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا. شادی کے بعد میری بیوی مجھے فروٹ چاٹ کھلانے لے گئی تو چاٹ والے کی آنکھوں میں قہر کے کوندے لپکنے لگے. وقت ایسا تھا کہ ٹھیلا بالکل خالی تھا.
کون اے ایہہ منڈا؟ اس نے کڑک کر پوچھا. لگتا ہے اس نے جب اپنے قانون کی دھجیاں بکھرتی دیکھیں تو برداشت نہ کر سکا. میری بیوی نے اسے جب بتایا کہ نئی نئی شادی ہوئی ہے اور یہ میرا میاں ہے تو اس نے عروسی زیورات سے اس کی بات کا یقین کیا اور چاٹ کے ساتھ مجھے کوکا کولا کی بوتل تحفتا” پیش کی. وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اتنی سختی کرنی پڑتی ہے ورنہ یہاں آوارہ لڑکے مکھیوں کی طرح بھنبھناتے پھریں. وہ ٹیکنالوجی سے پہلے کا دور تھا جس میں چھچھورے لڑکوں کو روزانہ کی بنیاد پر خجل خراب اور ذلیل ہونا پڑتا تھا. جو ذرا کم چھچھورے یا صحیح معنوں میں بزدل ہوتے تھے وہ ماتھے پر دایاں ہاتھ پھیر کر سلام کرنے کی رسم ادا کر لیا کرتے تھے.
قتیل شفائی صاحب گلڈ کے سیکرٹری تھے اور عام طور پر اس کے دفتر میں ملتے تھے. میں کالج کی بزمِ ادب کا سیکرٹری تھا. ان سے دو تین بار ملاقات ہو چکی تھی. ایک روز کالج کی ایک تقریب کے سلسلے میں انہیں لینے گیا. اس وقت وہ گنگنا کر مشقِ سخن کر رہے تھے. تازہ ترین غزل کا مطلع کہہ چکے تھے جو مجھے اب تک یاد ہے.
لگا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار آؤ سچ بولیں
تھوڑی دیر بعد اٹھنے کا موڈ بنا تو سواری منگوائے بغیر ہی باہر آگئے. باہر اپنی اپنی سواری کے انتظار میں کھڑی طالبات نے انہیں گھیر لیا. کوئی ان سے کالج کی نوٹ بک پر آٹوگراف لینے لگی اور کسی نے شعر سنانے کی فرمائش کی. وہ صحیح معنوں میں مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں. اس صورتحال سے گھبرا کر میں نے رکشا روکنا چاہا تو انہوں نے منع کردیا. کہنے لگے پیدل چلیں گے. شاید طالبات سے زیادہ وہ مزے لے رہے تھے. میں نے انہیں بڑی مشکل سے نکالا اور لاہور ہوٹل چوک اور چوک برف خانہ تک لے کر آیا. شکر ہے راستے میں لڑکیوں کا کوئی کالج نہیں پڑا.
وہ شاید بھٹو کا دوسرا سال تھا. میں گورنمنٹ کالج جا چکا تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں یومِ اقبال کا جلسہ منعقد ہورہا ہے جس کے مہمانِ خصوصی بھٹو کے وزیرِ اطلاعات مولانا کوثر نیازی ہوں گے. جب معلوم ہوا کہ اس تقریب میں ہمارا نوجوان دوست حافظ شفیق الرحمان “اقبال اور علماءِحق” کے موضوع پر تقریر کر رہا ہے تو میرا ماتھا ٹھنکا. وہ مجھ سے ایک سال جونیئر تھا، چہرہ سُچی داڑھی سے مزیّن تھا جس نے اب تک استرے کی شکل نہیں دیکھی تھی لیکن بظاہر مولویانہ وضع قطع رکھنے والا یہ اٹھارہ انیس سالہ نوجوان اندر سے شعلہ جوالہ تھا. میں نے حمید کوثر صاحب سے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ کس محفل میں کس کے سامنے کس موضوع پر آپ کس شمشیرِ آبدار کو بے نیام کر رہے ہیں. لیکن میری بات کے جواب میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اس کی تقریر کے نکات پر اگر ضروری سمجھو تو اس کو مناسب مشورہ ضرور دینا.
تقریر کے وقت وہی ہوا جس کا ڈر تھا. جنہوں نے شورش کی تقریر سن رکھی ہے وہ اس کے مترادفات کے خزینے سے واقف ہوں گے لیکن یہاں تو مترادفات کا سیلاب امڈ رہا تھا، ایک تو انداز بیان بھی مختلف تھا اور دوسرے تقریر کا ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح پرویا لگتا تھا. اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ارتجالا” تقریر کر رہا تھا.ادھر اس نے علماءِ حق اور نگار خانہ اقتدار کے دریوزہ گر مولویوں کا تقابل شروع کیا تو اُدھر مولانا کوثر نیازی کی آنکھوں میں خون اترنا شروع ہوا اور ان کے سامنے میز پر رکھا پانی کا جگ خالی ہو گیا. مقرر کا لہجہ نہیں، دلائل جارحانہ تھے جس کی وجہ سے کوثر نیازی کو نگارخانہ اقتدار کے دریوزہ گر مولویوں میں اپنی صورت دکھائی دے رہی تھی. حاضرین میں سے بظاہر سبھی نوجوان مقرر سے متفق تھے کیونکہ اُس زمانے کے لاہور میں ہمارے مہمان خصوصی مولانا وہسکی اور مولانا نوسر بازی کے نام سے مشہور تھے.
جب مہمانِ خصوصی کو تقریر کے لئے بلایا گیا تو ان کی حالت دیدنی تھی. ان کے منہ سے کف رواں تھا اور وہ نوجوان مقرر کے ہاتھوں اپنی اہانت پر سخت چراغ پا تھے. انہوں نے اپنی دستارِ فضیلت کو جو اس وقت ایک قراقلی ٹوپی کی شکل میں تھی، غصّے سے میز پر پٹج دیا اور چیخ چیخ کر حافظ شفیق کو شاہدرے کے ایک محلے کی عورتوں کی طرح کوسنے لگے. ان کے پاس دلائل کا فقدان تھا اس لئے انہوں نے حافظ صاحب کی تقریر کو گلے کی گراریوں کا کمال قرار دیا. پرنسپل صاحب کی صورت ایسی تھی گویا ابھی حرکت قلب بند ہو جائے گی. مولانا تقریر کے آخر میں چائے پئے اور ہاتھ ملائے بغیر رخصت ہوئے تو پرنسپل صاحب کو ایسا لگا گویا وہ ان کی موت کے پروانے پر مہر ثبت کر گئے ہوں. یاد رہے کہ ہمارے زمانے کے نڈر پرنسپل خواجہ عبدالحئی ریٹائر ہو کر جا چکے تھے.
اس رات حمید کوثر صاحب نے حافظ صاحب کو گھر جانے کی اجازت نہیں دی. خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ رات کسی وقت حافظ صاحب کو اٹھا لیا جائے گا. وہ زمانہ ہی ایسا تھا. اس طرح کی تقریریں کرنے والوں کی جوانی شاہی قلعے میں گذرتی تھی. خدا غریق رحمت کرے، حمید کوثر صاحب نے ایک ماں کی طرح انہیں اپنی شفقت کے پروں کے نیچے چھپا لیا تھا.
اس کے چند سال بعد بھٹو حکومت کے دمِ واپسیں میں الیکشن دھاندلی کے خلاف نو ستاروں کی تحریک شروع ہوئی تو اس کے اولین اسیران میں حافظ شفیق بھی شامل تھا. اپوزیشن کے سینئر رہنما بشمول جاوید ہاشمی گلبرگ کے ایک ہوٹل میں تحریک کے سلسلے میں اجلاس کر رہے تھے کہ دھر لئے گئے.تب ہمارا ممدوح جناب حمید کوثر کی شفقت کی چھتر چھایا سے بہت دور سیاست کے خارزار میں داخل ہو رہا تھا. اس نے ایک آدھ بار پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن پتھر کا ہو گیا.
(زیرِ تصنیف کتاب” لذّتِ آشنائی” کا ایک باب)